کیا آپ ایک شادی شدہ گے مرد ہیں؟


آج سے دس برس پیشتر میری ایک کینیڈین مریضہ جیولی نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی شادی سے بالکل مطمئن نہیں ہے کیوں کہ اس کا شوہر کیون پانچ سال کی شادی کے بعد بھی جذباتی طور پر غیر حاضر رہتا ہے۔ میں نے اس کے شوہر کو بلایا تو اس نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت کرنے کے باوجود اس سے جذباتی تعلق قائم نہیں کر پاتا اور اس کی جسمانی و رومانوی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ میں نے اس جوڑے کی چند ماہ تھراپی کی اور شوہر نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنی بیوی کی تمام ضروریات پوری کر سکے لیکن وہ ناکام رہا اور آخر ایک دن اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی۔

اس واقعہ کے بعد میاں بیوی نے میرے کلینک آنا چھوڑ دیا اور میں کافی عرصے تک یہ سوچتا رہا کہ ان کی شادی کے مسئلے کا کیا ایسا راز تھا جو میں جان نہ پایا اور ان کی مدد نہ کر سکا۔

یہ عقدہ مجھ پر اس وقت کھلا جب چند ماہ پیشتر کیون مجھ سے دوبارہ ملنے آیا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا جیسے وہ نادم اور خجل ہے۔
کہنے لگا ’میں آپ سے معذرت کرنے آیا ہوں‘ ۔
’کس بات کی معذرت؟‘ میں سراپا تجسس تھا۔
’ میں نے جیولی کو ہی نہیں آپ کو بھی پورا سچ نہیں بتایا تھا‘
’وہ کیا سچ تھا؟‘ میری حیرت میں اور بھی اضافہ ہوا۔

’میں گے ہوں اور مجھے عورتوں میں کوئی رومانوی دلچسپی نہیں ہے‘
’ تو پھر آپ نے شادی کیوں کی تھی؟‘ میری حیرت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
’تاکہ کسی پر میرا گے ہونا عیاں نہ ہو جائے۔ ‘
پھر کیون خاموش ہو گیا اور چند لمحوں کے توقف کے بعد کہنے لگا

’ میں نے شادی ختم ہونے کے بعد بھی کئی عورتوں سے رومانوی تعلقات قائم کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اب میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ میری مدد کریں کہ میں دلی طور پر قبول کر لوں کہ میں گے ہوں‘

میں نے اسے تھیرپی کے لیے قبول کر لیا۔ کئی مہینوں کی تھراپی کے بعد اس کی داخلی جنگ ختم ہو گئی اور اب وہ ایک گے مرد کے طور پر زندگی گزار رہا ہے۔

کل کیون کہنے لگا ’ڈاکٹر سہیل آپ کو بالکل اندازہ نہیں کہ میرے ذہن سے کتنا بھاری بوجھ اتر گیا ہے۔ اب میں ایک پرسکون زندگی گزار رہا ہوں‘

کیون سے ملنے سے پہلے میں نے سن رکھا تھا کہ انسان کا سچ اسے آزاد کر دیتا ہے لیکن کیوں کی تھراپی کے بعد مجھے اس قول کی اہمیت اور افادیت کا بہتر اندازہ ہوا ہے۔

جب سے میں نے ’ہم سب‘ پر نفسیاتی کالم لکھنے شروع کیے ہیں مجھے نجانے کتنے پاکستانی مردوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں جو گے بھی ہیں اور شادی شدہ بھی۔ وہ جسمانی طور پر اپنی بیوی کی خواب گاہ میں سوتے ہیں ہیں لیکن اپنے تصور اور اپنی فینٹسی میں کسی اور مرد محبوب کی خواب گاہ میں رات گزار رہے ہوتے ہیں اور بیوی بے چاری اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہوتی ہے کہ اس کا محبوب شوہر ایک گے مرد ہے۔

مجھے یہ کالم لکھتے ہوئے اپنی ایک مختصر نظم کے دو مصرعے یاد آ رہے ہیں
ہماری خواب گاہیں مشترک ہیں تو
ہمارے خواب اتنے مختلف کیوں ہیں؟

ایسے شادی شدہ گے مردوں نے جب مجھ سے مشورہ مانگا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنی بیوی کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ اس بیچاری کا کیا قصور ہے؟ وہ آپ سے محبت کرتی ہے آپ کا خیال رکھتی ہے آپ کی خدمت کرتی ہے اور آپ اس سے اپنا سچ چھپائے رکھتے ہیں۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔

ایک صاحب سے میں نے کہا آپ اپنی بیوی کو پورا سچ بتا دیں۔

کہنے لگے میری بیوی میری کزن ہے اگر اسے پتہ چل گیا تو سارے خاندان کو پتہ چل جائے گا اور میں بہت بدنام ہو جاؤں گا۔

میں نے کہا اگر سچ نہیں بتانا چاہتے تو پھر اسے طلاق دے دیں تا کہ وہ کسی ایسے شخص کو اپنا شوہر بنائے جو اس کی عزت بھی کرتا ہو اور محبت بھی تا کہ وہ اس کی جسمانی ’ذہنی‘ سماجی اور رومانوی سبھی ضروریات پوری کر سکے۔ ان صاحب نے ایسا ہی کیا۔ بیوی کو طلاق دینے کے بعد وہ اپنا چھوٹا سا شہر چھوڑ کر کسی اور بڑے شہر چلے گئے اور ایک گے زندگی گزارنے لگے۔

میں نے بہت سے ایسے پاکستانی مردوں سے تبادلہ خیال کیا ہے جو دو بالغ مردوں کی محبت اور ایک بالغ مرد اور ایک نابالغ لڑکے کے عشق میں فرق نہیں کرتے۔
مغرب میں دو بالغ مردوں کی محبت
ADULT TO ADULT HOMOSEXUALITY

کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جبکہ کسی بالغ مرد کا کسی نابالغ بچے یا لڑکے سے رومانوی یا جنسی تعلق قائم کرنے کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی عمل سمجھا جاتا ہے۔ ایسے شخص کو پیڈوفیلیا کے الزام میں پولیس گرفتار کرتی ہے اور جرم ثابت ہونے پر جج سخت سزا دیتا ہے۔

پاکستان میں نجانے کتنے مرد کسی نابالغ لڑکے سے رومانوی تعلق قائم کرنے کے حوالے سے میر کا یہ شعر سناتے ہیں

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

پاکستان میں دو جوان مردوں کی محبت کو لونڈے بازی سے کنفیوز کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گے محبت ایک ایسا موضوع پر جس پر کھل کر گفتگو نہیں ہوتی اور تمام تعلقات صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں۔

مجھے ایک پاکستانی شادی شدہ گے مرد نے یہ بھی بتایا کہ وہ عمرہ کرنے گیا تھا اور اس نے مکہ میں خدا سے دعا مانگی کہ وہ اس کے دل سے گے جذبات ختم کر دے لیکن اس کی دعا قبول نہ ہوئی اور وہ ان جذبات سے چھٹکارا نہ پا سکا۔

جب میں نے اسے کہا کہ ان جذبات سے لڑنے کی بجائے اسے قبول کر لو تو وہ بہت حیران ہوا۔
میں نے اسے بتایا کہ نفسیاتی اور رومانوی طور پر
کچھ لوگ جنس مخالف میں دلچسپی رکھتے ہیں
کچھ اپنی ہی جنس میں اور
کچھ دونوں جنسوں میں
لیکن جنسی تعلق دو عاقل و بالغ انسانوں کی محبت کا جسمانی و رومانی اظہار ہے۔

پاکستان میں نجانے کتنے خاندان ایسے ہیں جو اپنے بیٹوں سے پوچھے بغیر کہ وہ کہیں گے تو نہیں ان کی کسی سادہ و معصوم سی دلہن سے شادی کروا دیتے ہیں اور وہ معصوم عورت ساری عمر ایک ایسے شوہر سے محبت کرتی رہتی ہے جو اس سے محبت نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ گے ہے۔

میرے نزدیک ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے اور دوسروں کے سچ کو دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ سچ ہمیں آزاد کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments