لاہور میں سیاسی کارکن کی ہلاکت اور عدلیہ کے بارے میں بدگمانیاں


بدھ کو لاہور میں تحریک انصاف کے ایک کارکن کی ہلاکت کے بعد ملک میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کارکن کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قطع نظر ایک نوجوان کیسے اور کن حالات میں جاں بحق ہوا، سیاسی تنازعہ میں انسانی جان کا ضائع ہونا افسوسناک ہے۔ اس کے بعد تناؤ میں اضافہ ہو گا اور سیاسی گروہ زیادہ تند و تیز رویہ اختیار کریں گے۔

عمران خان اور مریم نواز کے بیانات سے اس نئی کشیدگی کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دونوں لیڈر قومی مفاد کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے عدلیہ کو کسی حد تک ’نیوٹرل امپائر‘ کی حیثیت حاصل تھی لیکن اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے متنازعہ فیصلوں اور بعض ججوں کی جانبداری کے بارے میں سوال سامنے آنے کے بعد عدلیہ کا کردار بھی تنازعہ کا شکار ہوا ہے۔ تحریک انصاف اب ’عدلیہ بچاؤ‘ مہم جوئی کے ذریعے عدلیہ کی غیر جانبداری کے متعلق میں رہی سہی کسر بھی پوری کر رہی ہے۔ عدلیہ پر آنے والے دباؤ کا اندازہ اس بات سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ اب پیمرا نے ججوں کے خلاف بیان نشر کرنے پر پابندی عائد کی ہے۔ اس طرح کسی حد تک ججوں کو عمومی الزام تراشی سے حفاظت فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ایسے طریقوں سے شبہات میں اضافہ ہوتا ہے اور مزید سوالات سامنے آتے ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ کہ وہ اعلیٰ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں آنے دیں گے اور پیمرا کی طرف سے ان کی ’حفاظت‘ کا اقدام درحقیقت عدلیہ کی مشکلات میں اضافہ کرے گا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے ملکی عدلیہ نہ تو خود کو کلّی طور سے سیاسی معاملات سے علیحدہ رکھ سکی ہے اور نہ ہی ملک میں پائے جانے والے تنازعہ کا کوئی حل تجویز کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ سیاسی معاملات کو پارٹیوں اور سیاست دانوں کو ہی حل کرنا ہے لیکن یہ صورت حال اسی وقت دیکھنے میں آ سکتی ہے جب ملکی ادارے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ اس وقت پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کو ایک طرف اس الزام کا سامنا ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف مسلسل نرمی سے کام لے رہی ہیں اور قوانین کی مسلسل خلاف ورزی اور عدالتی احکامات کی تعمیل سے انکار کے باوجود انہیں ریلیف دیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ میں حال ہی میں پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے حوالے سے عجلت میں دیا گیا فیصلہ مزید الجھنوں اور عدالت عظمی کے بارے میں شبہات کو تقویت دینے کا سبب بنا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ملکی آئین اسمبلیاں توڑے جانے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا تقاضا کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سوموٹو کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی وجہ سے یہ آئینی ضرورت تو نہ جانے پوری ہوئی یا نہیں لیکن عدلیہ کی غیرجانبداری کی بارے میں سوالات ضرور اٹھنے لگے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پہلے تو 9 رکنی بنچ میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد نیا بنچ بنانے کی بجائے باقی ماندہ پانچ ججوں پر مشتمل بنچ میں ہی اس معاملہ پر غور جاری رکھا۔ پھر اس معاملہ میں غیر ضروری عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ حالانکہ عدالت کا کام تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے کر اور فریقین کے موقف سننے کے بعد ہی کسی نتیجہ پر پہنچنا ہوتا ہے۔ اگر آئینی گتھی سلجھانے جیسے اہم معاملہ میں چیف جسٹس خود کو ہی درست قرار دے کر ہمہ قسم اعتراضات کو مسترد کریں گے تو اس سے معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔ حکومتی پارٹیوں کی طرف سے ماضی قریب کے دو سابقہ چیف جسٹسوں کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہوئے ان پر جانبدارانہ فیصلے کرنے کے سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

چیف جسٹس کو اس صورت حال کو انتباہ کے طور پر دیکھنا چاہیے تھا تاکہ ان کی ’قانونی میراث‘ سابقہ چیف جسٹسوں سے مختلف ہوتی اور اس سال کے آخر میں ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں خود بھی ویسی ہی ناخوشگوار صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس معاملہ کا یہ پہلو اپنی جگہ بنیادی اہمیت کا حامل رہے گا کہ کوئی جج کسی قسم کے دباؤ اور مستقبل میں الزام تراشی کے خوف میں مبتلا ہو کر فیصلے نہیں کر سکتا۔ تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو اپنے عدالتی انتظامی طریقہ کار کے بارے میں بعض سنگین سوالوں کا سامنا ہے اور وہ ابھی تک ان کا مناسب اور قابل قبول جواب فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

چیف جسٹس کی طرف سے بنچوں کی تشکیل پر اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں۔ ان میں یہ اعتراض بہر حال بے حد وزنی ہے کہ اہم آئینی معاملات پر غور کرنے والے بنچوں میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں کو شامل کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ بار بار یاددہانی کے باوجود چیف جسٹس نے یہ طریقہ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بنچوں کی ساخت کا معاملہ اس حد تک سنگین حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ اچانک بنچ تبدیل ہونے کے سوال پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو اس سال ستمبر میں چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے، نے حال ہی میں ایک تحریری فیصلہ میں اچانک بنچ توڑنے، مقدمات کو ایک بنچ سے دوسرے بنچ کو منتقل کرنے اور جونئیر ججوں کو بنچوں کا سربراہ بنانے کے معاملہ پر تحریری فیصلہ جاری کیا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملہ پر بھی حکومتی پارٹیوں اور پاکستان بار کونسل نے فل کورٹ بنچ بنانے اور سینئر ججوں کو بنچ میں شامل کرنے کی استدعا کی تھی لیکن اس معاملہ کو قابل غور نہیں سمجھا گیا۔

چیف جسٹس نے دو ججوں کے نوٹ کی بنیاد پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی بنچ تشکیل دیا تھا تاہم پہلی ہی سماعت کے دوران سوموٹو لینے کی درخواست کرنے والے دونوں ججوں کی بنچ میں شمولیت پر خود بنچ میں شامل ایک جج کی طرف سے اعتراض سامنے آ گیا۔ اس کے علاوہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) نے انہی دو ججوں کو جانبدار قرار دے کر ان سے علیحدہ ہونے کی درخواست کی۔ ان دونوں فاضل ججوں نے خود کو بنچ سے علیحدہ کر لیا لیکن دو مزید جج سوموٹو نوٹس کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے بنچ سے علیحدہ ہوئے۔ سماعت کے دوران پانچ رکنی بنچ میں شامل دو ججوں نے بھی اسی موقف کی حمایت کی اور اس معاملہ پر سو موٹو لوٹس لینے کو غلط طریقہ قرار دیا۔ تاہم یہ ساری صورت حال بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو تین دو کی اکثریت سے نوّے دن کی مدت میں انتخابات کروانے اور پنجاب کی حد تک صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا حق دینے سے باز نہیں رکھ سکی۔

سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ نو رکنی بنچ بنانا ضروری قیاس کیا گیا تو صرف پانچ رکنی بنچ نے ہی کیوں اس کی سماعت جاری رکھی؟ کیا وجہ ہے کہ بنچ سے علیحدہ ہونے والے ججوں کی جگہ دیگر جج اس بنچ میں شامل نہیں کیے گئے یا حکومت اور پاکستان بار کونسل کی درخواست کے باوجود فل کورٹ بنچ کیوں نہیں بنایا گیا اور نہ ہی اسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ اب حکومتی پارٹیاں اس فیصلے کو متنازعہ قرار دے کر کہہ رہی ہیں کہ درحقیقت صرف تین ججوں نے یہ فیصلہ کیا ہے جبکہ چار جج اس کے خلاف تھے۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے یہ نکتہ اٹھانے کے علاوہ استفسار کیا ہے کہ عدالت نے ملکی معاشی صورت حال اور انتظامی و سکیورٹی مسائل پر غور نہیں کیا جس کی وجہ سے مشکل سیاسی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ دوسری طرف وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان عملی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو صوبوں میں قومی اسمبلی کے انتخاب سے پہلے انتخابات کروانے کی صورت میں پیدا ہوں گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عام انتخابات کے وقت صوبوں اور مرکز میں عبوری حکومتیں قائم ہونا آئینی ضرورت ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں اگر صوبوں میں اب انتخابات ہو گئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب کیوں کر آئینی تقاضوں کے مطابق کروایا جا سکے گا۔

یہ اعتراضات انتخابات کو فوری طور سے ٹالنے کے لئے عذر کے طور پر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ ورنہ حکومت چاہتی تو قومی اسمبلی کے انتخاب کا اعلان کر کے تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی۔ اب پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کا باقاعدہ اعلان ہونے کے باوجود کسی کو یقین نہیں ہے کہ واقعی اس تاریخ کو پنجاب اسمبلی منتخب ہو سکے گی۔ خیبر پختون خوا کے گورنر تو مسلسل انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ایک طرف ملک سنگین مالی مشکلات کا شکار ہے تو دوسری طرف انتخابات کے نام پر سیاسی بحران پیدا کر کے ملک میں انتشار اور بے چینی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے عدالتی فیصلے کی وجہ سے اب عدلیہ بھی اس تنازعہ میں حصہ دار بن گئی ہے۔

مناسب ہوتا اگر سیاسی پارٹیاں اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتیں۔ لیکن جب سیاست کو اصولوں کی بجائے ذاتی انا کا مسئلہ بنا لیا جائے تو اس تصادم میں علی بلال جیسے سیاسی کارکن جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن سیاسی قائدین ذاتی ایجنڈے کی تکمیل میں کسی مفاہمت پر آمادہ نہیں ہوتے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے بعد اب عدلیہ بھی اس تنازعہ میں فریق کے طور پر پیش ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments