عورت مارچ: یہ تو ہو گا


ہر چند کہ ’جید علمائے کرائم‘ معاف کیجیے گا قلم پھسل گیا تھا۔ کہنا یہ تھا کہ خود ساختہ علمائے کرام عورت کو ٹافی، چلغوزہ اور اسی قبیل کی دیگر اشیا قرار دے چکے ہیں لہٰذا عورت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ وہ ایک ٹافی ہے اور اگر ٹافی کسی کے ہاتھ لگ جائے تو وہ ریپر اتار کر اسے منہ میں ڈالنے پر مجبور ہوتا ہے۔ حیف صد حیف کہ عورتیں یہ بات سمجھتی نہیں ہیں اور خود کو انسان سمجھنے کی شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ چناں چہ ہر سال عورت مارچ کر کے بھولے بھالے مردوں کے جذبات بھڑکانے کا عمل کرتی ہیں جس کی کوئی بھی صالح مرد حمایت نہیں کر سکتا۔ تاہم صالحین سالانہ حمل کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ہر گھڑی تیار کامران رہتے ہیں۔

عورت کے پاس چونکہ دل نہیں ہوتا اس لیے وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ مرد اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر عورت سے دل لگی کرتا ہے۔ دل لگی جنون بنتی ہے تو شادی کی دعوت دیتا ہے۔ عورت کو چاہیے کہ اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے فوراً سے پیشتر اس دعوت کو قبول کر لے۔ اس کا انکار مرد کو دیوانہ بنا دیتا ہے اور وہ اس عورت کے چہرے پر تیزاب ڈال دیتا ہے تاکہ اس کا حسین چہرہ دیکھ کر کوئی اور مرد دیوانہ نہ بنے۔ مرد کو عورت سے کوئی دشمنی نہیں وہ فقط دیگر مردوں کو دیوانگی سے بچانا چاہتا ہے۔

مردِ مومن عورت کو ملکہ بنانا چاہتا ہے خواہ اس کی سلطنت ڈھائی مرلے پر محیط ہو۔ عورت ملکہ بن کر بادشاہ سلامت کی ہر خواہش پر سرِ تسلیم خم کرتی ہے۔ اسے گول روٹی بنانے، جھاڑو لگانے، برتن مانجھنے، کپڑے دھونے، دس بارہ بچوں کی پرورش کرنے حتیٰ کہ غیر فطری افعال سر انجام دینے میں بھی ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اتنا ارفع مقام حاصل ہونے کے باوجود عورت اپنی حماقت اور نادانی کے باعث خود کو کنیز سمجھتی ہے اور چل پڑتی ہے عورت مارچ کرنے، اور پھر طرح طرح کے ’بے ہودہ‘ نعرے لگاتی ہے جیسے اپنا کھانا خود گرم کرو، میرا جسم میری مرضی وغیرہ۔ کیا کسی ٹافی یا چلغوزے نے بھی مارچ کیا ہے؟

ایک شوہر اگر غصے میں ہو گا تو وہ بیوی کو ٹھوکروں کی زد پر رکھے گا، اس کے جسم پر کچھ نیل ڈالے گا یا یوں کہہ لیں کہ اس کی پٹائی کرے گا اب اتنی سی بات پر عورت مارچ والی آنٹیاں طوفان کھڑا کر دیں گی۔ بینر اٹھا کر نعرے لگائیں گی بھلا بتائیے مرد اگر اپنی بیوی پر غصہ نہ نکالے تو اور کس پر نکالے؟ رہی عورت کی بات تو عورت کو غصہ آتا ہی نہیں اور اگر آنے کی کوشش کرے تو عورت کو غصے سے دور رہنے کی بھرپور کوشش کرے کیوں کہ حکما نے غصے کو عورت کے لیے حرام قرار دیا ہے۔

یقیناً آپ اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ بھوکے کی بھوک مٹانا ثواب کا کام ہے اور ایک بھوکے کو اپنی بھوک مٹانے کے سوا کسی اور بات کا خیال نہیں رہتا۔ اب اگر ایک بھوکا مرد راہ چلتی عورت کو اپنی آنکھوں سے ہڑپ کرنے کی کوشش کرے، اس کی ٹانگوں پر ہاتھ مار دے یا اس کی چھاتیاں نوچ لے تو اس پر لعن طعن کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ وہ بیچارہ تو اپنی بھوک سے مجبور ہے۔

دفتروں میں کام کرنے والی عورتیں اکثر مردوں کے خلاف جنسی ہراسانی کے الزامات لگاتی رہتی ہیں۔ یہ نہایت لغو بات ہے۔ جنسی ہراسانی کے واقعات کیا صرف دفاتر میں ہی ہوتے ہیں۔ اخبارات میں چھپنے والی خبروں، ٹی وی چینلز کی نشریات اور سینہ گزٹ کے مطابق ایسے واقعات چھتوں، چوباروں، گھروں کے آنگنوں سے لے کر بس سٹاپوں، میلوں، جلسوں، راہداریوں، بازاروں حتیٰ کہ بسوں اور جہازوں میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں کسی ایک مقام کو ہائی لائٹ کرنا قطعاً مناسب نہیں۔ بہر حال ایسے واقعات پر خاموش رہنا ہی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ عورت اگر زبان کھولے گی تو اس میں اسی کی بدنامی ہے اور بدنامی کی زندگی کون جینا چاہتا ہے؟ عورت کو چاہیے کہ چپ رہ کر عزت کی زندگی گزارے۔

اگرچہ اربابِ دانش و بینش عورت پر جنسی حملوں کو حتی الامکان چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ عورت کی بدنامی نہ ہو اور مردوں کو ان کے ناکردہ گناہوں پر مطعون نہ کیا جائے اس کے باوجود اس طرح کے واقعات کسی نہ کسی طور ظاہر ہو ہی جاتے ہیں۔ ظاہر ہے مرد کسی عورت کا ریپ کرتا ہے تو شیطان کے بہکاوے میں آ کر کرتا ہے یعنی اصل قصوروار مرد نہیں بلکہ شیطان ہے۔ ایسی صورت میں سزا بھی شیطان کو ملنی چاہیے۔ مرد کو باعزت بری کر دینا چاہیے۔ جب کہ عورتیں جنسی استحصال کو بنیاد بنا کر عورت مارچ میں مردوں کو خوب برا بھلا کہتی ہیں۔ یہ عمل بھی قابلِ نفرین ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتِ حال میں عورتوں کو کیسے اس عورت مارچ والی بے حیائی سے روکا جائے۔ ایک طریقہ تو صالحین نے بڑی مشکل سے ڈھونڈا ہے کہ عورت مارچ کے دن حیا ڈے منایا جائے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ عورتیں حیا ڈے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتیں اور عورت مارچ والے جلوس میں پہنچ جاتی ہیں۔ لہٰذا اس کا بہترین حل یہ ہے کہ عورتوں کو پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ یعنی نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ نہ عورتیں ہوں گی نہ عورت مارچ ہو گا۔ بصورتِ دیگر یہ جان لیں کہ یہ تو ہو گا۔ جی ہاں یہ تو ہو گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments