باتیں رمز شناسی کی
ہمارے معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں جو خدا آشنا ہیں اور دوسرے وہ جو خدا کو یاد کرنے کے قائل ہیں خدا آشنا ہونا اور ہے خدا کو یاد کرنا اور ہے اگر آپ کسی سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو اس سے ملنا ضروری ہے جبکہ یاد تو ملنے کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے یاد اس کو کیا جاتا ہے جسے ہم بھول چکے ہوں ہم بہت سی چیزیں بھول گئے ہیں جیسے پیدا ہونے سے پہلے ہم کہاں تھے کچھ معلوم نہیں یعنی ہم بھول گئے ہیں خدا کو یاد کرنے کے بعد بھی ہم خدا سے آشنا نہیں تو ہم خدا کو بھولے ہوئے ہیں یہ نماز روزہ اس ذات کی یاد ہے اگر اس یاد نے آپ کو اس ذات سے آشنا نہیں کیا تو یہ بے سود ہے عبادات کا مقصد اس ذات سے آشنائی اور اس ذات کا قرب حاصل کرنا ہے وہ عبادات کیسی عبادات ہیں؟
جن سے قرب خداوندی حاصل نہ ہو اگر یاد سے قرب خداوندی حاصل نہ ہو تو پھر خدا آشنا کے پاس بیٹھ کر معرفت الہی کو پایا جا سکتا ہے جیسا کہ عام مثال ہے کہ استاد بننے کے لئے پہلے شاگرد بننا پڑتا ہے پھر ایک وقت کے بعد آپ استاد بن جاتے ہیں اگر آپ خدا شناس بننا چاہتے ہو تو خدا شناس کی صحبت اختیار کرو اک وقت آئے گا جب آپ خدا شناس ہو جاؤ گے۔
جسم و روح
انسان دو چیزوں کا سنگم ہے جسم اور روح جسم مادی چیز ہے جسے دیکھا اور چھوا جا سکتا اور روح غیر مادی چیز ہے اگرچہ یہ نظر نہیں آتی لیکن اس کا انکار بھی نہیں کیا جاسکتا جس طرح جسم کی حفاظت نہ کی جائے تو یہ کمزور اور بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے پھر جسم کی بیماریوں کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں یہی حال ہماری روح کا ہے روح کی بیماریوں کے علاج کے لیے آپ کا ایک روحانی استاد ہونا چاہیے بہت سے لوگوں کے جسم تو خوبصورت ہوتے ہیں لیکن روح بیمار ہوتی ہے وہ اس خوبصورت جسم میں بے چین ہوتی ہے گچھ لوگ اس کی آہ و فغاں سنتے اور روح کو توانائی بخشنے کے لیے روحانی پیشواؤں مزاروں اور درباروں پر جاتے ہیں تاکہ ان کی روح کو سکون حاصل ہو جو مردہ روحیں ہیں ان کو مزاروں اور درباروں سے فیض حاصل نہیں ہوتا اس لیے وہ درباروں کا انکار کرتے ہیں جن کی روحیں کسی کامل کی نگاہ سے بیدار ہو جائیں تو وہ درباروں پر انوار و تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں آج میری روح بھی نغمہ الاپ رہی ہے کہ اس کو میں اس کے روحانی پیشوا کے سامنے عاجزی سے پیش کر دوں تاکہ یہ پوری طرح بیدار ہو سکے اسی میں سکون ہے
ذاتی واردات
اپنی ذات کے طلسم کو توڑ دو آزاد ہو جاؤ گے جو اپنی ذات سے آشنا ہے وہی مومن ہے جب انسان اپنی ذات کے طلسم کو توڑ کر اپنی ذات سے آشنا ہوتا ہے تو اس کی دنیا بدل جاتی ہے وہ اس دنیا میں اک نئی دنیا دیکھتا ہے چیزوں کو دیکھنے کا انداز بدل جاتا ہے اس کے لیے ہر چیز باعث تسکین ہو جاتی ہے اس کے لیے غم اور خوشی یکساں ہو جاتی ہے اپنی ذات سے آشنا شخص اس مقام پر ہوتا ہے جہاں غم بھی اسے مزا دیتے ہیں خوشی پر رونا اور غم پر ہنسنا اس کا معمول بن جاتا ہے جو بادشاہی اللہ اس کو عطاء کرتا ہے یہ دنیا دار اس کا گمان بھی نہیں کر سکتے خود آشنا شخص کے سوچنے کا انداز بدل جاتا ہے وہ دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر سوچتا ہے دنیا کی ہر چیز اسے خدا آشنا کرواتی اور اس ذات کا آئینہ بن کر آشکار ہوتی ہے اک نئے روپ میں وہ ذات ہی اس کے سامنے جلوہ نما ہوتی ہے آشنا شخص ہر وقت اپنے اندر اک لذت محسوس کرتا ہے اور یہ لذت خدا کی طرف اس کی جستجو کو کم نہیں ہونے دیتی آشنا شخص کی حرکات و سکنات عام آدمی کی نسبت مختلف ہوتی ہیں اس کی آنکھیں پر نم ہوتی ہیں اس کی آنکھیں جو نظارہ دیکھتی ہیں عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اس نظارے کی لذت ناقابل بیان ہے اس ذات کے اسرار و رموز اس پر عیاں ہوتے ہیں اور وہ لاخوف ہو جاتا ہے یہ آشنا شخص کی گفتگو ہے اور آشنا شخص ہی اس کو سمجھ سکتا ہے۔
- باتیں رمز شناسی کی - 12/03/2023
- زندگی کی شام - 28/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).