کیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے غریب عوام کی کوئی فکر نہیں؟


کسی ملک کے لیے قرض لینا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ امیر اور غریب ممالک قرضہ لے کر پیداواری عمل میں لگاتے ہیں جس سے معیشت بڑھتی ہے۔ پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم قرض لے کر اپنی معیشت میں اضافہ نہیں کرتے اس لیے مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کے مشن نے فروری کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس نے حکومت سے معاشی معاملات بہتر کرنے، سبسڈیز ختم کرنے اور سرمایہ پیداواری عمل میں لگانے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے 170 ارب کے نئے ٹیکس لگائے تو لوگوں نے آئی ایم ایف کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ سوال اٹھایا گیا کہ کیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے غریبوں کی پروا نہیں؟ ضروریات زندگی کی قیمت میں اضافہ کیوں کیا گیا؟ حکمران اپنی ذمہ داری سے منہ چرانے کے لیے مہنگائی کا الزام آئی ایم ایف پر عائد کر رہے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد محض آئی ایم ایف کو ذمہ دار ٹھہرانا نہیں بلکہ آئی ایم ایف، عوام اور حکومت کی ذمہ داریوں، تحفظات اور ممکنہ لائحہ عمل پر بات ہو گی۔

موجودہ حکومت بھی روایتی انداز میں معاشی مشکلات کی تمام تر ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدوں کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے صورت حال زیادہ بگڑی اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے باہمی تعلقات کو سمجھنے کے لیے ہم آئی ایم کے ماضی کے پروگراموں پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔

پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ تاحال بائیس پروگرام ہوئے ہیں۔ موجودہ پروگرام کے معاہدے پر جولائی 2019 میں دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو چھے ارب ڈالر ملنے تھے جس میں سے تین ارب ڈالرز ہم لے چکے اور باقی تین ارب ڈالرز ہم لے کر رہیں گے تاحال ہم انہی مذاکرات میں ہیں کہ کیسے لیں۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ پہلا پروگرام فوجی صدر ایوب خان کے دور سے شروع ہوا۔ 1958 میں پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ پہلا پروگرام طے پایا جس کے تحت پاکستان کو ڈھائی کروڑ ڈالر دینے کا معاہدہ طے پایا۔ فوجی صدر ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ تین پروگرام ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ چار پروگرام ہوئے۔ فوجی صدر ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ دو پروگرام ہوئے۔

بینظیر بھٹو کی سربراہی میں بننے والی پہلی حکومت میں پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ دو پروگرام طے پائے۔ جبکہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے تین پروگرام ہوئے۔

نواز شریف کی پہلی حکومت میں ایک اور دوسری حکومت میں دو آئی ایم ایف پروگرام طے پائے۔

سابق فوجی صدر پرویز پرویز مشرف کے دور اقتدار میں دو جبکہ پی پی پی کی 2008 سے 2013 تک کی حکومت میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ایک پروگرام میں شمولیت اختیار کی۔

تحریک انصاف کے دور اقتدار میں ایک آئی ایم ایف پروگرام طے پایا اور تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد نون لیگ کی سربراہی میں یہ معاہدہ جاری ہے۔

یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ تمام حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے مذکورہ بالا پیریاڈک ٹیبل کی فرہنگ میں اپنی اپنی حاضری یقینی بنائی گئی۔ گویا آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے تعلقات کی آبیاری تازہ نہیں ہے بلکہ یہ تعلق دہائیوں سے مربوط ہے۔ انیس سو اٹھاون سے لمحہ موجود تک قرض تو ہم لے رہے ہیں مگر غریب عوام کی بہتری کی ذمہ داری آئی ایم ایف پر لاگو ہے۔

اب آتے ہیں اس طرف کہ ہمیں اغوا کر کے آئی ایم ایف کے پاس کیوں لے جایا جاتا ہے؟ کیا آئی ایم ایف ہمیں زبردستی قرض دیتا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ کوئی ملک آئی ایم ایف کے پاس کیوں جاتا ہے ہم پاکستان کی مثال سامنے رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جب ملکی درآمدات، برآمدات سے زائد ہوں جیسے موجودہ وقت میں پاکستان کی صورت حال ہے، ہو تو اس وقت ملک کو بیلنس آف پیمنٹ یعنی ادائیگیوں کے توازن کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں رہتا۔ پہلے دوست ممالک بھی مشکل وقت کچھ نرم شرائط کے عوض پاکستان کو قرض ادا کرتے تھے مگر اب حالت یہ آن پہنچی کہ دوست ممالک نے بھی قرض کی ادائیگی آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط کر دی ہے۔

ایک عام آدمی جب کسی کو قرض دیتا ہے تو قرض کی واپسی کی شرائط تو رکھتا ہی ہے تاکہ رقم کی واپسی بر وقت ہو۔ آئی ایم ایف سے ہمارا تعلق دور کے کزن کا بھی نہیں کہ نا مساعد حالات کا جواز دے کر اور منت کر کے قرض سے خلاصی پائیں۔ جب مہنگائی کا الزام، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری حکمران اور عوام آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالتے ہیں تو ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ گیس اور تیل کی قیمتوں کا تعین ”اوگرا“ کرتا ہے آئی ایم ایف نہیں۔

جب کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کو غریب آدمی کی کوئی فکر نہیں تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آئی ایم ایف حکومت کو حکومتی اخراجات کم کرنے کی سفارشات پیش کرتا ہے جس سے ہماری ماضی، حال اور مستقبل کی تمام حکومتیں بیزار نظر آتی ہیں۔ مزید یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اگر سب کچھ آئی ایم ایف نے کرنا ہے تو اس حکومت کی نمائش پر ٹکٹ لگا کر کیوں نہ ایک عجائب گھر کھولا جائے اور کچھ سرمایہ یوں بھی جمع کیا جائے؟

موجودہ وقت میں سیاسی بے یقینی کی صورت حال اور معاشی ابتری کے باعث پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ڈھٹائی میں جا پڑا۔ مسلسل سیاسی بے یقینی کے باعث آئی ایم ایف ہمیں قرض جاری کرنے سے مانع رہا اور تاحال ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ جہاں نان پکوڑے والے تک جلی حروف میں ”ادھار مانگ کر شرمندہ مت کریں، نقد بڑے شوق سے“ سے جیسے جملے لکھ رکھیں وہیں ہم آئی ایم ایف سے نہ جانے کیسی رعایت کی امید میں ہیں۔ مہینے کے اختتام پر پرچون والا بھی عام آدمی سے تنخواہ ملنے کے بعد قرض چکانے کی تسلی لیتا ہے اور یہاں آئی ایم ایف سے ہم قرض تو لینا چاہتے ہیں مگر شرط بھی ہماری کہ ادھار واپس مانگ کر شرمندہ مت ہوں۔

اس دلدل سے نکلنے کے لیے حکومتی سطح پر سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ موجودہ وزیر اعظم کے مہنگائی سے مقابلے کے لئے جاری کردہ بیانات اور نعرے کہ ’ہم اپنے کپڑے بیچ دیں گے‘ اب عوام میں نہیں بکیں گے۔ حکومت اپنے وزراء کا سرکاری پیٹرول نہ استعمال کرنے کا احسان عوام پر مت جتائے بلکہ مستقل بنیادوں پر ملکی معاشی پالیسی پر کام کرے۔ حکومت کو برامدات کے ساتھ ساتھ صنعتی ڈھانچے میں ترقی اور زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لانا ہو گا۔ یوں تو ہمارا ملک عداد و شمار میں زرعی شمار ہوتا ہے مگر آئے دن گندم درآمد کی جاتی ہے اس قہقہے کو کب سنجیدگی میسر ہوگی؟

عوام کو بھی اپنی اپنی پسند کے حکمرانوں کی شان میں یاد کیے ہوئے قصیدے فی الحال کہیں کسی فولڈر میں محفوظ رکھنے چاہئیں اور تمام حکمرانوں سے بہتر معاشی اور سیاسی معاملات کا تقاضا بلا کسی سیاسی تفریق کے کرنا ہو گا کیوں کہ یہ مسئلہ کسی ایک جماعت یہ گروہ کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments