طبیعات اور مابعدالطبیعات میں کیا فرق ہے؟ ( 3 )


” ہم سب“ فیملی کی خدمت میں اردو کتاب : ’مذہب سائنس اور نفسیات‘ کی تیسری قسط حاضر ہے۔ یہ مضامین دو سائنسدانوں نے ایک دوسرے کو خطوط کی صورت میں لکھے تھے۔ مکمل کتاب پاکستان میں طباعت کے مراحل میں ہے اور قوی امید ہے کہ کتاب امسال مارچ کے نصف تک دستیاب ہوگی۔ دوسری قسط کا موضوع جہاں دلچسپ ہے وہاں کسی قدر سنجیدہ بھی ہے جو انسانی سوچ کا زاویہ بدل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مضمون کا آغاز ڈاکٹر خالد سہیل کے سوال سے ہوتا ہے :

خالد سہیل : آپ ایک طبیعات داں ہیں۔ مگر میں مابعدالطبیعات کے بارے میں متجسس ہوں۔ کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ طبیعات اور ما بعد الطبیعات کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟

سہیل زبیری : یہ ایک مشکل سوال ہے۔ بہر کیف میں جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

”مابعدالطبیعات“ کا لفظ سب سے پہلے ’ارسطو‘ کے کام کے حوالے سے استعمال ہوا تھا۔ اگرچہ ارسطو نے خود یہ لفظ استعمال نہیں کیا مگر بعد میں آنے والے فلسفیوں نے ارسطو کا وہ کام جو طبیعات کے دائرے سے باہر تھا، کو ’مابعدالطبیعات‘ کا نام دیا۔

’طبیعات‘ ، سائنس کی سب سے پرانی شاخوں میں سے ایک ہے جو وسیع تر معنوں میں یہ کھوج لگانے کی کوشش کرتی ہے کہ کائنات کیسے کام کر رہی ہے۔ یہ تحقیق کے بعد وہ قوانین بناتی ہے جو نہ صرف سامنے نظر آنے والے موجود عناصر کے آپس میں رشتے کا تعین کرتے ہیں، بلکہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی بھی کرتے ہیں۔ اس کی سب سے عمدہ مثال ”قانون کشش ثقل“ ہے، جو نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ زمین کتنی قوت سے کسی شے کو اپنے مرکز کی طرف کھینچتی ہے بلکہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ جب کوئی شے ایک خاص قوت سے کسی سمت پھینکی جائے تو کس قسم کی قوس (خط پرواز) بنے گی۔

حتٰی کہ وہ یہ پیش گوئی بھی خاصی درستگی کے ساتھ کر دے گا کہ ہمارے نظام شمسی میں سیارے سورج کے گرد کس انداز میں گھوم رہے ہیں۔ مگر جب کچھ نئی دریافت ایسی ہوتی ہیں جن کی تشریح موجودہ قوانین میں نہیں ملتی تو پھر تحقیق کا کام نئے قوانین کو جنم دیتا ہے۔ یہ نئے قوانین تمام مشاہدات کی نئے سرے سے کامیابی سے تشریح کرتے ہیں۔

’مابعدالطبیعات‘ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں پر طبیعات ختم ہوتی ہے۔ طبیعات ان سوالوں کے جوابات نہیں دیتی جو فلسفے اور دینیات (الہیات) کے زمرے میں آتے ہیں۔ مثلاً ایک طبیعات داں یہ تو بتا سکتا ہے کہ جب کسی شے پر قوت لگائی جائے تو وہ حرکت کرتی ہے مگر یہ بتانا اس کے دائرہ کا رسے باہر ہے کہ یہ قانون کس نے بنایا؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ کام ’مابعدالطبیعات‘ کا ہے جو فلسفے کی اہم شاخ کے طور پر الگ سے سامنے آ رہی ہے۔

مابعدالطبیعات نہ صرف طبیعات کی حدود سے باہر ہے بلکہ علم سائنس سے بھی باہر کا علم ہے۔ مابعدالطبیعات کی بنیاد اندازوں اور موضوعی خیالات پر رکھی گئی ہے۔ طبیعات جو سوالات اٹھاتی ہے وہ مادے اور زمان و مکان کی منتخب کردہ حدود و قیود سے متعلق ہوتے ہیں۔ وہ واضح نظر آتے ہیں اور آسانی سے سمجھ آ جاتے ہیں۔ جبکہ مابعدالطبیعات، نامعلوم اور اکثر ’سمجھ سے بالاتر‘ علاقے میں جا کر ان جوابات کے معانی تلاش کرتی ہے۔ مثال کے طور پر زندگی کو سمجھنے کے لئے ایک طبیعات داں، زندگی کی بنیاد یعنی ’ڈی این اے‘ کے ریشوں کی ترتیب دیکھتا ہے۔

وہ زندگی کی ہیئت اور ڈی این اے کا رشتہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ڈی این اے کا ڈھانچہ انسانی اوصاف کو کیسے متاثر کرتا ہے۔ اس کے بر عکس ایک ’مابعدالطبیعات داں‘ روح اور حیات بعد الموت کو لے کر زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگرچہ مابعدالطبیعات میں زمان و مکان کی حقیقت اور مطلق حقیقت کی کھوج جیسے موضوعات شامل ہیں مگر اس کے موضوعات لا متناہی ہونے کے ساتھ ساتھ لایعنی بھی ہیں۔

طبیعات ایک تواتر سے مابعدالطبیعات کے علاقے میں گھومتی پھرتی ہے۔ اور وہ موضوعات جو کبھی مابعدالطبیعات کے زمرے میں آتے تھے ان کی تشریح سائنس کے ذریعے کر کے اپنے شعبے میں داخل کرتی رہتی ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں ’کوانٹم مکینکس‘ اور ’تھیوری آف ریلے ٹیویٹی‘ کے ظہور کی وجہ سے طبیعات کا شعبہ ایک عظیم انقلاب سے گزرا ہے۔ جس نے طبیعات کے ان تمام قوانین کی کایا کلپ کر دی ہے جو گزشتہ صدیوں میں نیوٹن اور دیگر سائنس دانوں نے بنائے تھے۔ دونوں تھیوریاں انسانی تاریخ کی کامیاب ترین دریافتیں ہیں۔ تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی ان میں کوئی ترمیم نہیں کی جا سکی۔ باوجودیکہ وقت، فاصلہ، وزن اور درجہ حرارت جیسی مقداریں ماپنے کے پیمانے حیرت انگیز باریک بینی کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ بلکہ جن سوالات کے جوابات ان تھیوریوں نے دیے ہیں ان کے جوابات اس وقت مل جانے چاہئیں تھے۔ کیونکہ گزشتہ دو تین صدیوں میں سائنس نے بہت ترقی کی ہے۔

انیسویں صدی کے اواخر تک، طبیعات، مخصوص اور واضح قوانین کے ستونوں پر کھڑی تھی۔ طبیعات کے قوانین مطلق اور غیر متزلزل سمجھے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر ، اگر ایک شے نپی تلی طاقتوں کے زیر اثر حرکت کر رہی ہے تو طبیعات کے قوانین بتا سکتے ہیں کہ وہ شے کہاں ہے اور آنے والے لمحات میں کس رفتار سے حرکت کرے گی۔ ’کوانٹم مکینکس‘ کے مطابق ایسا ناممکن ہے۔ ’کوانٹم مکینکس‘ کے قوانین ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس ماپنے کے جتنے بھی باریک بین آلے موجود کیوں نہ ہوں ہم کسی کام کا کوئی خاص نتیجہ ملنے کا صرف امکان ظاہر کر سکتے ہیں۔ کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اس چیز کا مابعدالطبیعات نے فائدہ اٹھایا اور اس کو اندازے لگانے کے لئے نئے موضوعات مل گئے۔

”حقیقت“ دراصل ہے کیا؟ ’

کوانٹم مکینکس ’کے پاس اس سوال کا جواب بھی غیر متوقع اور نیا ہے۔ اس سے قبل طبیعات اور ما بعد ا اا الطبیعات کا خیال تھا کہ کچھ حقیقتیں ایسی ہیں جو کوئی مقصد رکھتی ہیں اور مشاہدہ کاروں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ‘ کوانٹم مکینکس ’نے اس دلیل کو یکسر مسترد کر دیا، اس کے مطابق، پیمانوں سے ہر معلوم شے دیکھی، ناپی اور تولی جا سکتی ہے۔

ایک ہزار برس سے ہم نے ذرات اور لہروں کو الگ الگ اشیاء مانا اور سمجھا ہے۔ ہمارے نزدیک روشنی لہروں پر مبنی ہے اور توانائی کا گولہ (فوٹان) ایک بڑا ذرہ ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ گولہ لہروں کی طرح کام نہیں کرتا اور نہ لہریں گولے کی طرح۔ ’کوانٹم مکینیکل‘ قوانین کے مطابق ایسی کسی تفریق کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ روشنی گولوں اور لہروں، دونوں کی شکل میں سفر کر سکتی ہے۔ کچھ تجربات میں روشنی نے لہروں میں سفر کیا اور دوسرے تجربات میں روشنی نے فوٹان (توانائی کے گولے ) کی شکل میں سفر کیا۔ اسی طرح ایٹم بھی لہروں اور ذرات دونوں طرح سے کام کر سکتا ہے۔ لہروں اور ذرات کے یہ مظاہر ایک ناقابل یقین دریافت ہے جو انسان کی اب تک کی دانش سے بالا تر ہے۔

حتیٰ کہ آئن سٹائن جیسی زیرک شخصیت بھی اس ناقابل یقین حقیقت سے سمجھوتہ نہیں کر پا رہی تھی۔ ایسے معمے حل کرنے کے لئے سائنسدانوں نے عجیب و غریب حل نکالا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک سے زیادہ بلکہ لامتناہی کائناتیں موجود ہیں۔ گویا، آپ میری طرف دیکھیں۔ میں آپ کو خوش نظر آ رہا ہوں۔ مگر عین اسی وقت ایک اور کائنات پیدا ہو گئی ہے۔ جس کے اندر میں اداس ہوں۔

متعدد کائناتوں کا نظریہ بظاہر ایک دیوانے کا خواب لگتا ہے مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اکثر سائنسداں بھی اس کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ مگر ہم متعدد کائناتوں کے وجود کو نہ تو ثابت کر سکتے ہیں اور نہ ہی جھٹلا سکتے ہیں اس لئے یہ بحث مابعدالطبیعات کے زمرے میں آ جاتی ہے۔

ایک عملی طبیعات داں عموماً حقیقی دنیا کے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں مصروف رہتا ہے اس لئے وہ مابعدالطبیعات کے مباحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ اس کے نزدیک مابعدالطبیعات ایک عطائی یا نیم حکیم والا کام ہے۔ جب کہ دوسری طرف ایک فلاسفر مابعدالطبیعات کی (اپنی پیدا کردہ ) گتھیاں سلجھانے میں خوشی خوشی ساری زندگی صرف کر دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments