پنجاب کی ثقافت کا دن


پنجابی لوک کہانی ”ہیر رانجھا“ آج بھی نوجوانوں کی دلوں میں دھڑکن کی طرح بستی ہے جب رانجھا اپنی بانسری کے ذریعے محبت کے سر چھیڑتا تھا تو ہیر دیوانہ وار اس کے پاس پہنچ جاتی تھی اسی لئے اکثر آج بھی نوجوان پارکوں اور رومانٹک مقامات پر بانسری بجاتے نظر آتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ان کی بانسری کے سر سن کر ان کی ہیر ایک دن ضرور ان تک پہنچ جائے گی۔ پنجاب کی سرزمین صرف عشق و محبت کی داستانوں سے ہی بھری ہوئی نہیں بلکہ یہاں غیرت مندوں اور بہادروں کی بھی ایسی لازوال داستانیں ہیں جو آج بھی پنجاب کی پہچان ہیں۔

مہمان نوازی، پیار اور محبت سے بھری پنجاب کی سرزمین کی ثقافت کا شمار دنیا کی بہترین ثقافت میں ہوتا ہے۔ نئی نسل وقت کے ساتھ ساتھ پنجاب کی اصل ثقافت سے دور ہوتی جا رہی تھی اسی لئے 14 مارچ کو پنجاب کی ثقافت کا دن منانے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ سن 2021 میں سرکاری سطح پر پنجاب کا ثقافتی دن منایا گیا۔ اس سال پنجاب کا ثقافتی دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جا رہا ہے جس کا موضوع ہے ”پنجاب ثقافت دیہاڑ“ ۔

اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے زیر اہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ الحمراء آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ”پنجاب ثقافت دیہاڑ“ کے حوالے سے بہت سے پروگراموں کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں ڈھول پرفارمنس، اونٹ ڈانس، گھڑ ڈانس، بانسری، جو رتی شہنائی پرفارمنس، پنجاب ویلج، ہیر گائیکی، ماہیے ٹپے بولیاں، بھنگڑا پرفارمنس، صوفی رقص اور پنجاب کرافٹ بازار شامل ہیں۔ اس موقع پر معروف گلوکار فضل جٹ، عارف لوہار، سائیں ظہور، شاہد لوہار، جمیل لوہار، صائمہ جہاں اور دیگر آرٹسٹ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پنجاب دنیا کا قدیم ترین خطہ بھی کہلاتا ہے، لاکھوں سال قبل پتھر کے زمانہ میں بھی یہاں انسان زندگی بسر کرتے تھے، ان کے پاس پتھر کے اوزار تھے جن سے وہ شکار کیا کرتے تھے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔ آریا قوم اپنا آبائی وطن ترک کر کے نئے وطن کی تلاش میں نکلے تو پنجاب میں آ گئے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں تاریخی دور

کا آغاز آریاؤں کی آمد کے بعد سے ہوا تھا۔ آریاؤں نے پنجاب میں قیام کے دوران ایک کتاب تصنیف کی کی جس کا نام ”رگ وید“ ہے اس کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں پنجاب کا ذکر ”سپت سندھو“ کے نام سے آیا ہے۔ سپت کے معنی سات اور سندھو کے معنی دریا ہیں اسی لئے مسلمانوں کی آمد سے قبل پنجاب کو ”سپت سندھو“ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا تھا اس وقت پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی کی دیواروں تک پھیلا ہوا تھا۔ جب دریائے سندھ اور اٹک کے علاقہ اس سے علیحدہ ہوئے تو اس کا نام ”پنج ند“ میں تبدیل ہو گیا۔

”پنج ند“ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے مطابق ”پنج“ کا مطلب ”پانچ“ اور ”ند“ کا مطلب ”دریا“ یعنی ”پانچ دریاؤں“ کی سرزمین۔ مہا بھارت کے قصہ کہانیوں میں پنجاب کا ذکر ”پنج ند“ یعنی پانچ ندیوں کے نام سے کیا گیا ہے۔ مسلمانوں نے جب قابل کے راستے اس سرزمین پر قدم رکھا تو اس کا نام ”پنج ند“ کی بجائے ”پنجاب“ رکھ دیا۔ پنجاب پنجند کا فارسی ترجمہ ہے۔ چودھویں صدی میں مسلمان سیاح ابن بطوطہ یہاں سیر کرنے کے لئے آئے تو اپنی تحریروں میں پنجاب کا ذکر کیا۔

سولہویں صدی میں شیر شاہ سوری کے عہد میں پنجاب کا لفظ وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا اس کے علاوہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے عہد کی مستند دستاویزی کتاب ”آئین اکبری“ اور مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر کی فارسی زبان میں تصنیف ”تزک جہانگیری“ میں پنجاب کا ذکر ملتا ہے۔ یونانیوں کے عہد میں پنجاب کو ”پنیٹاپوٹامیہ“ کہا جاتا تھا جس کا مطلب بھی پانچ دریاؤں کی سرزمین ہے۔ پنجاب کی قدیم ترین تہذیب ”سواں تہذیب“ کہلاتی ہے جبکہ پنجاب میں واقع ہڑپہ کا شمار بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیب میں ہوتا ہے۔ پنجاب کی ثقافت اور اصل پہچان کو زندہ رکھنے کے لئے ثقافتی دن کے علاوہ سرکاری سطح پر انٹرنیشنل پنجابی ادبی کانفرنس کا انعقاد بھی ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments