الیکشن کے انعقاد میں رکاوٹیں کیوں؟


پاکستان کے رائج قانون 1973 کے مطابق ملک میں پارلیمانی نظام حکومت ہوگی۔ ان کے لیے انتخابات ہر پانچ سال بعد ہوں گے۔ قومی اسمبلی کو صدر مملکت وزیراعظم کی مشاورت سے تحلیل کر سکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کو گورنر متعلقہ صوبے کے وزیراعلیٰ کی مشاورت سے تحلیل کر سکتا ہے۔ اسمبلی تحلیل کے بعد نوے دن میں انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی قانونی ذمہ داری بنتی ہے۔ جس سے کسی بھی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری بھیج دی لیکن گورنر پنجاب نے اس سمری پر دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے قانون کے مطابق اگر گورنر 48 گھنٹوں میں دستخط نہ کریں تو اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جاتی ہے۔ گورنر کے عدم دستخط پر اسمبلی 14 جنوری 2023 کو خود بخود تحلیل ہوگی۔ نگران سیٹ اپ میں رخصت ہونے والے وزیر اعلیٰ کی مشاورت کو اہمیت نہیں دے گی۔ بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات پر نگران سیٹ اپ کو پنجاب میں تشکیل دیا گیا۔

14 جنوری کو تحلیل ہونے والی اسمبلی کے انتخابات قانون کے مطابق تین ماہ کے اندر لازمی ہے۔ جن کو ہر صورت 14 اپریل تک لازمی انتخابات کروانے تھے لیکن اس قانونی مسئلہ کو گمبھیر بنا دیا گیا۔ تاکہ انتخابات بروقت نہ ہو سکے۔ دوسری طرف خیبرپختونخوا کے اسمبلی کی سمری پر گورنر کے پی نے بروقت دستخط کر کے 18 جنوری 2023 کو تحلیل کر دیا۔ لیکن گورنر نے تین ماہ کے اندر انتخابات کے لیے وقت نہیں دیا۔ دونوں صوبوں میں اسمبلیوں کے تحلیل کے بعد تین ماہ میں انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے۔

لیکن انتخابات کے انعقاد میں ذمہ داری کا احساس ادا نہیں کیا گیا۔ جس پر پاکستان تحریک انصاف نے عدالتی نظام کا سہارا لیا۔ کیوں کہ گزشتہ 10 اپریل سے ملک میں پاکستان تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کا ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن بالآخر قانونی جیت پاکستان تحریک انصاف کی ہوتی ہے۔ دونوں صوبوں میں گورنروں نے ہر ممکن کوششیں کی کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہو۔ حالانکہ یہ قانونی حق وزیر اعلیٰ کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ 75 سالوں سے ملک میں قانونی نہیں نظریہ ضرورت کے مطابق احکامات چلائے جاتے ہیں۔

بالآخر ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے دونوں صوبوں میں تین ماہ کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ جو کہ قانونی حکم تھا۔ عدالتوں کا کام قانون کی تشریح کرنا ہے۔ ذاتی پسند و ناپسند سے جمہوریت میں کام نہیں چلتا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر چونکہ پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط سے تحلیل نہیں ہوئی تھی۔ لہذا صدر پاکستان انتخابات کی تاریخ الیکشن کمیشن کو دے گا۔ لہذا صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے 30 اپریل 2023 کی تاریخ دی۔

لیکن دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی گورنر خیبرپختونخوا نے آج تک تاریخ نہیں دی۔ جو کہ قانون کی خلاف ورزی اور حلف سے روگردانی ہے۔ جس کی سزا آرٹیکل 6 ہے۔ دونوں صوبوں میں الیکشن کے ماحول کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ 10 اپریل کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹانے کا اہم کردار امریکہ بہادر کا رہا۔ کیوں کہ امریکہ کو پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی قبول نہیں۔ اس امریکی مداخلت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والوں میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سر فہرست رہا۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہر ممکن کوشش ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان حکومت میں نہ آئے۔ اسی تناظر میں الیکشن کے التوا کے لیے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ملک میں امن وامان ٹھیک نہیں لہذا الیکشن کا انعقاد نہیں ہو سکتا ۔ آج پاکستان میں حالات بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ کوئی حملے اور خود کش دھماکے نہیں ہو رہے ہیں۔ 2008 میں تو ملک دھماکوں کی لپیٹ میں تھا۔ پھر انتخابات کیوں کروائے؟ یہ کمزور دلیل ہے۔ ملک میں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ ملک میں خصوصاً خیبرپختونخوا اور پنجاب میں حالات بالکل سازگار ہیں۔ عوام کو حق دو کہ وہ

ووٹ کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے مل کر قانون کے مطابق دونوں صوبوں میں بروقت انتخابات کر اسکے۔ یہی قانونی حل ہے۔ یہی ملکی مفاد میں ہے۔ ایک دفعہ پھر 1970 کی تاریخ کو دہرانا بے وقوفی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments