انسان کی آزادی


ہم سب نے سن رکھا ہے کہ زمانہ قدیم میں انسانوں کی منڈیاں لگا کرتی تھیں، جہاں ان کی بولیاں لگتیں اور انسان آزادانہ خریدے اور فروخت کیے جاتے۔ چند ٹکوں کی بدولت انہیں زندگی بھر کے لیے غلام رکھا جاتا اور جو بغاوت کرنے کی کوشش کرتے انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا یا پھر قید کی صعوبتیں جھیلنے کے لیے تاحیات پابند سلاسل کر دیا جاتا۔

سیانے کہتے ہیں کہ پھر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبوں نے ترقی کی اور انسان زنجیروں اور غلامانہ پابندیوں سے آزاد ہوتا چلا گیا۔ اور یہ کہ آج کا انسان ہر طور سے آزاد ہے۔ وہ جہاں چاہے منٹوں اور سیکنڈوں میں پہنچ سکتا ہے۔ پہیے کی ایجاد نے فاصلوں کو ختم کر دیا۔ انٹرنیٹ نیٹ کے ذریعے مشرق میں بیٹھا انسان صرف ایک کلک سے مغرب میں بیٹھے اپنے عزیز رشتے داروں سے ایسے بات چیت کر سکتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوں۔ مزید براں، انسان نے چاند پر قدم جما لیے۔ مریخ تک پہنچ گیا اور دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کی دوڑ میں شامل ہے۔ اس نے خلاء کے رازوں کو بھی افشاں کر لیا۔ مگر صد افسوس کہ وہ اپنے اندر کی تاریکی کو ختم نا کر سکا۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!
(اقبال)

درحقیقت، جدید دور کے انسان کی زندگی زمانہ قدیم کے انسان کی زندگی سے بھی بدتر ہے۔ آج اس کے ہاتھ میں سمارٹ فون تھما دیا گیا ہے جو اس کے شب و روز کو کنٹرول کر رہا ہے۔ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز نے اس سے اس کا سکون چھین لیا ہے۔ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ نے اس کی روح کو بے چین و بے قرار کر دیا ہے۔ آج اس کی بنیادی ضرورتوں کا دائرہ جان بوجھ کر بڑھا دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ٹی۔ وی، فریج، گاڑی، اے۔ سی اور سمارٹ فونز وغیرہ ہر گھر اور شخص کی ضرورت نہیں تھے۔ آج نفسیاتی اشتہارات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام نے ان چیزوں کو اس کی بنیادی ضرورت بنا دیا ہے، حتیٰ کہ ابھی بھی دنیا کی اکثریت روٹی، کپڑا، مکان، صاف پانی، لباس اور تعلیم جیسی ضروریات کو حاصل کرنے سے محروم ہے۔

اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ غریبوں کی مدد کرنے والا اس کی سیلفی کھینچ کر سوشل میڈیا کے مختلف فورمز پر دکھانا ضروری سمجھتا ہے۔ فیس بک، انسٹا اور ٹویٹر جیسے فورمز انسان کے ذاتی ڈیٹا کو بغیر کسی قانونی خوف کے بیچتے پھر رہے ہیں۔ پروپیگنڈا جنگ کے ذریعے اب صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم کر کے بین الاقوامی سطح پر آسانی سے خود کو مظلوم اور انہیں ظالم ثابت کر دیتا ہے۔ یہی کچھ حال کشمیر اور برما کے مسلمانوں کا ہے، وہ مظلوم ہوتے ہوئے ظالم دکھائے جاتے ہیں اور یقین کرنے والے اس پروپیگنڈا پر تہہ دل سے یقین کر لیتے ہیں۔ آج بھی یوکرین جیسا ملک روس اور امریکا کی سرد جنگ کا مرکز بنا ہوا ہے اور وہاں کئی معصوم جانیں ان سپر طاقتوں کی غلط پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔

لہذا، میری نظر میں آج کا انسان بھی بالکل آزاد نہیں ہے۔ بلکہ اس کی زندگی زمانہ قدیم کے انسان سے بھی بدتر ہے۔ کم از کم انسان تب فطرت کے اصولوں کے مطابق رات کو سو اور دن کو جاگ تو سکتا تھا، اور صاف ستھری ہوا میں سانس لے سکتا تھا۔ مگر اب جب تک انسانی دماغ سمارٹ فون اور نیٹ فلیکس جیسی ایجادات کو استعمال کر کے تھک نہیں جاتا، وہ سو ہی نہیں سکتا۔ افسوس، ہر گزرتے لمحے اس کی زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل اور اجیرن ہوتی جا رہی ہے۔ انسانیت دکھاوے کا روپ لے رہی ہے اور ہر سو نفسا نفسی اور ہو کا عالم طاری کر دیا گیا ہے۔

چنانچہ، جدید دور کا انسان قطعاً آزاد نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اس کی سوچیں، دلائل اور حرکات و سکنات کا ہر لمحہ تک پروپیگنڈا کے ذریعے قید کر لیا گیا ہے۔ اب انسان صرف پروپیگنڈا کی بنا پر بغیر سوچے سمجھے اپنی دوستیاں اور دشمنیاں بنا بیٹھتا ہے۔ بیمار اور تیماردار دونوں اپنے اپنے سمارٹ فونز میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ میری نظر میں آج کے انسان کی سانسیں تک سرمایہ دارانہ نظام ٹھیکے پر لے چکا ہے۔ باقی، میں جدید دور کے انسان کی آزادی کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اسے کس حد تک آزاد اور مقید سمجھتے ہیں۔

عاصم پرویز گورسی
Latest posts by عاصم پرویز گورسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments