شو کمار بٹالوی: پنجابی زبان کا جان کیٹس
شو کمار بٹالوی 23 جولائی 1936 کو پنجاب کے شہر نارووال میں پیدا ہوئے۔ تقسیم پنجاب کے وقت شیو کمار بٹالوی کی عمر گیارہ سال تھی۔ شو کمار بٹالوی نے میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا اور بقیہ تعلیم بیرنگ یونین کالج کرسچیئن سے حاصل کی۔ مگر کوئی بھی ڈگری کسی بھی ادارے سے مکمل نہ کی اور کچھ عرصہ کے بعد پٹواری بھرتی ہوئے مگر کچھ عرصہ بعد اس کو چھوڑ کر مکمل طور پر پنجابی ادب سے جڑ گئے۔ یہ ہجر و فراق کا شاعر 7 مئی 1973 کو عین جوانی میں دنیا سے کوچ کر گیا۔
آج بھی جب دونوں پنجابوں میں شاعری کی خاص طور پر پنجابی شاعری میں محبت کی بات کی جائے تو شو کمار بٹالوی کا نام نظر آتا ہے۔ شو کمار بٹالوی بھی دوسرے پنجابی کے کلاسیکل شعرا ء، خاص طور پر وارث شاہ اور بلھے شاہ کی طرح دونوں پنجابوں میں پڑھا اور سمجھا جاتا ہے۔ اس کی شاعری میں ہجر کی دھن میں دکھوں کو زبان دیتی ہوئی نظر آتی ہے جو کوئی اور شاعر نہ دے سکا۔ اس کی شاعری میں پنجاب کے رسم و رواج سے جڑی ہر چیز پائی جاتی ہے جو ایک عام انسان آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور یہی بات اسے باقی شعراء سے منفرد کرتی ہے۔
شو نے پنجابی زبان کے ذریعے اپنی بات لوگوں تک پہنچائی۔ ہندوستانی زندگی میں اس نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا جو اس کی شاعری کا موضوع بھی بنے مگر اس نے محبت کو وہ رنگ دیا جو کوئی اور شاعر نہ دے سکا اور یہی بات اس کی شاعری کو آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جب وہ محبت کی بات کرتا ہے تو انسانوں کے علاوہ شجروں، طبقات کے اختلافات کو پرے رکھ کے ان سب کو محبت کی زبان سے پکا رتا ہوا نظر آتا ہے۔
جب وہ ہجر کی بات کرتا ہے تو لفظوں کے ذریعے اس کو ایسا بیان کرتا کہ ہجر خود چیختا ہوا سنائی دیتا ہے۔ اس کے گیتوں کو پاک و ہند کے گلوکاروں نے گائے جس میں نصرت فتح علی خاں، پرویز مہدی، ہنس راج، آسا سنگھ مستانہ شامل تھے
اس کے شعری مجموعے کچھ اس ترتیب سے شائع ہوئے۔
پیڑاں دا پر اگا۔ 1960 پہلا مجموعہ۔ جس میں پچیس نظمیں اس کے بعد دوسرا مجموعہ 1961 اور ایک سال کے 1962 میں ”آٹے دیاں چڑیاں“ جو معاشرتی برائیاں خاص طور پر وٹہ سٹہ اور کم عمر کی شادی اور باقی رسم و رواج پر تھا۔ 1963 میں ”مینوں وداع کرو“ یہ ان کا چوتھا مجموعہ شاعری تھا اور اس میں پچیس نظمیں شائع ہوئی۔ 1965 وچ اس نے ایک طویل نظم لونا لکھی جس نے کلاسیکی لمبی نظم کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔ اس نظم کی بنا پر انہیں 1967 میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔
شو یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے پہلے کم عمر شاعر تھے۔ شو کمار بٹالوی پر بہت سا کام ہو چکا ہے اور خاص طور پر نظمیں اور کالم لکھے جا چکے ہیں۔ جس میں رانا سعید دوشی کی نظم گیتاں دا سیف ملوک اور ملک شاہد اقبال کا کالم پنجابی زبان دا جان کیٹس قابل ذکر ہے ان کی شاعری کا مجموعہ کلام شو کمار بٹالوی کے نام سے سانجھ پبلیکیشن سے شائع ہو چکا ہے۔
- شو کمار بٹالوی: پنجابی زبان کا جان کیٹس - 13/03/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).