”کثیرالزاویہ “نظامِ عدل!



یہ ذکر ہے ہمارے زمانہ طالب علمی کا۔ اساتذہ مثلث، مربع، مستطیل شکلوں کی مدد سے ہمیں قائمہ، حادہ اور منفرجہ جیسے زاویے سمجھاتے تھے۔ متعدد اضلاع یا زاویے رکھنے والی شکل کو کثیرالاضلاع کہا جاتا تھا جس کے لئے ’کثیر الزاویہ‘ کی ترکیب زیادہ موزوں لگتی ہے۔

75 سالہ تاریخ عدل وانصاف کاجائزہ لیا جائے تو آپ کو ہر رنگ، روپ، وضع، شکل، نوع، قبیل اور قسم کے فیصلے ملیں گے۔ ہر فیصلہ ایک مخصوص زاویہ رکھتا ہے جس کا رشتہ چند متعلقات سے جڑا ہے۔ مثلاً یہ کہ فیصلہ کس طرح کے سیاسی موسموں میں صادر ہوا؟ آمریت کا سورج سوا نیزے پر تھا یا جمہوریت کی دھوپ چھاﺅں آنکھ مچولی کھیل رہی تھی؟ زیر نظر مقدمے کے فریقین کون تھے؟ روایتی طاقت ترازو کے کس پلڑے کے ساتھ لگی کھڑی تھی؟ عدالتی بینچ کی ساخت کیا تھی اور کون کون سے منصفانِ ذی شان مسندِ انصاف پر جلوہ گر تھے؟ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی آئین، ایک ہی قانون اور ایک ہی ضابطہ دیوانی و فوجداری کی کسی ایک ہی شق کی ہمیں متنوع، رنگارنگ بلکہ متضاد و متصادم تعبیریں دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے عدل کی ایک عِشوہ پرداز ادا اسے دنیا بھر میں ممتاز بناتی ہے کہ کوئی عالی مرتبت جج آئین و قانون کی غلط تعبیر کرے تو بھی اس کا فائدہ ایک مخصوص فریق کو ہوتا ہے اور اگر کئی برس بعد وہ اپنی غلطی کی اصلاح کرکے کسی مختلف قانونی تعبیر تک پہنچے تو بھی اس کے ثمراتِ شیریں اسی فریق کی جھولی میں پڑتے ہیں۔ کوئی ایسی اَڑچن آ پڑے جس کا کوئی حل آئین وقانون میں نہ ہو یا آئین و قانون ہی بھاڑ میں جھونک دئیے جائیں تو بھی ہمارا عدل بیچارگی کی بُکل مارکر نہیں بیٹھ جاتا، وہ فی الفور اپنی زنبیل سے نظریہ ضرورت کا نسخہِ کیمیا نکالتا اور حرام کو حلال قرار دے دیتا ہے۔ ہمارا نظامِ عدل ایک اور پہلو سے بھی دنیا بھر میں منفرد ہے۔ کبھی ایکا ایکی اِس کی رگوں میں بجلیاں سی کوندنے لگتی ہیں۔ وہ تاتاری ہرن کی طرح طرّارے بھرنے لگتا ہے تاکہ ”انصاف“ میں لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہ ہو۔ اور کبھی نامہرباں موسمی اثرات کے باعث اِس کے لہو میں برف کی کرچیاں سی جم جاتی ہیں اور وہ کسی عمر رسیدہ، لاغر و لاچار کچھوے کی طرح رینگنے سے بھی عاجز ہوتا ہے۔ آہوئے تاتاری جیسی برق پائی کی سب سے عمدہ اور تاریخی نوعیت کی مثالیں سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے مقدمات کے حوالے سے ملتی ہیں۔ میں اس دن کی کہانی کسی اگلے کالم میں بیان کروں گا جس دِن نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے شدید عدالتی دباﺅ کے باعث احتساب عدالت میں ”ملزم“ کی وکالت سے معذرت کرلی تھی۔ ایک دِن قبل چیف جسٹس ثاقب نثار اور شہرہِ آفاق مانیٹرنگ جج جسٹس اعجاز الاحسن نے خواجہ صاحب کو حکم دیا تھا کہ احتساب عدالت میں کارروائی کو سمیٹا جائے بے شک ہفتہ اتوار کو بھی عدالت لگے اور روزانہ کی بنیاد پر صبح سے شام تک سماعت ہو۔ مسئلہ یہ تھا کہ انتخابات دوڑے چلے آرہے تھے اور نواز شریف کی نااہلیت کے فیصلے میں تاخیر ہو رہی تھی۔

آج کل جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کا تذکرہ ایک بار پھر چوپالوں کا موضوع ہے۔ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل اور صدر عارف علوی کی چابک دَستی بھی انصاف کی اسی برق پائی کا نادر نمونہ تھی۔البتہ جب زخم خوردہ منصف گرتا پڑتا بارگاہ ِعدل تک پہنچا تو ”کثیرالزاویّہ“ انصاف آن واحد میں ’کچھوا پائی‘ کی جون میں ڈھل گیا۔ جسٹس صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کیخلاف 25 اکتوبر2018ء کو عدالتِ عظمی سے رجوع کیا۔ اسسٹنٹ رجسٹرار نے اِس پر کچھ اعتراضات لگا دیئے۔ 5 نومبر کو اعتراضات کیخلاف درخواست دائر کی گئی۔ ساڑھے تین ماہ بعد 21 فروری 2019ء کو جسٹس عظمت سعید شیخ نے چیمبر میں درخواست سنی۔ اعتراضات رَد کرتے ہوئے کہا کہ یہ پٹیشن عدالت کے سامنے لگائی جائے۔ کوئی ایک ماہ بعد 25 مارچ کو جسٹس مشیر عالم،جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے مقدمے کی پہلی سماعت کی۔ بینچ نے پٹیشن کو قابل سماعت قرار دیکر کارروائی آگے بڑھانے کا حکم جاری کیا۔ تب جسٹس گلزار احمد چیف جسٹس کی مسند پر فائز تھے۔

نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر انہوں نے جسٹس مشیر عالم کو بینچ سے نکال کر اسکی سربراہی موجودہ چیف جسٹس، عمر عطا بندیال کو سونپ دی۔ 24 ستمبر 2020ء کو دوسری سماعت ہوئی اور 9 دسمبر2020 ء کو تیسری۔ 2021ء میں کچھوے نے جھرجھری سی لی۔ اس سال آٹھ سماعتیں ہوئیں لیکن زیادہ وقت ایک بار پھر اِس سوال کی نذر ہوگیا کہ یہ درخواست قابلِ سماعت بھی ہے یانہیں؟جسٹس عمرعطا بندیال کے چیف جسٹس بننے کے بعد، دسمبر 2021ء سے اب تک پانچ تاریخیں پڑیں۔ آخری سماعت 13 جون 2022ء کو ہوئی۔ جسٹس صدیقی کے وکیل، حامد خان نے کہا کہ مجھے صرف پندرہ منٹ اور چاہئیں۔ اس کے بعد آپ بھلے اٹارنی جنرل کو سن کر فیصلہ صادر کردیں۔ سماعت ملتوی ہو گئی۔ اس بات کو اب نو ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران بینچ کے دو ارکان جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس سجاد علی شاہ ریٹائر ہوکر گھروں کو جاچکے ہیں۔ جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے حصولِ انصاف کی خاطر جلد سماعت کی بائیس درخواستیں دیں۔ مختلف چیف جسٹس صاحبان کے نام دَرد میں ڈوبے بارہ خطوط لکھے۔ لیکن اکتوبر2018 ء سے سفر کا آغاز کرنے والی پٹیشن، ساڑھے چار برس بعد بھی ”کچھوا پائی“سے نجات حاصل نہیں کر پائی۔ کسی بھی سماعت میں، کسی بھی مسندِ انصاف کی طرف سے یہ سوال نہیں اٹھا کہ کیوں نہ جنرل (ر) فیض حمید کو بلا کر پوچھ لیا جائے کہ شوکت عزیز صدیقی نامی شخص سچ بول رہا ہے یا غلط بیانی کر رہا ہے؟ اب تو فیض حمید اعتراف بھی کرچکے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارا ’کثیرالزاویہ‘ انصاف اب بھی جنرل (ر) فیض حمید کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ اس کے سامنے اپنی ہی برادری کا ایک بے بال و پر شکارنیم جاں پڑا ہے۔ یوں بھی’کثیرالزاویہ‘انصاف، دنیا کے عدالتی نظاموں کی طرح اندھا نہیں ہوتا۔ وہ ماشاءاللہ ”دیدہ¿ بینا“ رکھتا ہے بلکہ اس کے تو پور پور میں کئی کئی آنکھیں ہوتی ہیں۔ فیصلہ دیکھ بھال کر اور ناپ تول کر کرتا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments