بیانیہ کی سیاسی جنگ


قومی سیاست میں ایک بڑی سیاسی جنگ ”بیانیہ کی جنگ میں برتری“ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ عمومی طور پر دنیا کی سیاست میں اس وقت بیانیہ کی جنگ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس جنگ کی مدد سے رائے عامہ کو اپنے سیاسی حصار میں قید کیا جاتا ہے اور لوگوں میں اس نقطہ نظر کو برتری دی جاتی ہے کہ یہ ہی بیانیہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ بنیادی طور پر ہم نے بیانیہ کی جنگ کو دہشت گردی کی جنگ میں استعمال کیا اور انتہا پسندی یا دہشت گردی کے مقابلے میں ایک پرامن متبادل بیانیہ کی تشکیل میں ریاستی، حکومتی، معاشرتی یا ادارے کی سطح پر کام کیا۔

لیکن اس وقت یہ ہی بیانیہ کی جنگ ایک بڑی سیاسی جنگ میں بھی تبدیل ہو گئی ہے۔ ایک طرف تیرہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے اور اس اتحاد کی سربراہی وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف عمران خان یا پی ٹی آئی ہے جو حکمران اتحاد کے مقابلے میں تن تنہا سیاسی میدان میں موجود ہے۔ اس بیانیہ کی جنگ کی اپنی اہمیت ہے مگر بدقسمتی سے اس جنگ میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے ہمیں سیاسی تناؤ، ٹکراؤ، محاذ آرائی اور سیاسی اختلافات سیاسی دشمنی کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ سیاسی دشمنی اس حد تک آگے بڑھ گئی ہے کہ کوئی فریق بھی کسی کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے یا مفاہمت کا راستہ تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں۔

2023 مجموعی طور پر عام انتخابات کا برس ہے۔ اس برس اکتوبر میں عام انتخابات ہونے تھے مگر پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب اور کے پی کے کی دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کے انعقاد اور اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد دو صوبائی اسمبلیوں کی سطح پر انتخابی ماحول بن گیا ہے۔ پنجاب کے صوبائی انتخابات کی تاریخ 30 اپریل ہے اور اس کا انتخابی شیڈول بھی سامنے آ گیا ہے۔ جبکہ کے پی کے کی انتخابی تاریخ اور شیڈول بھی اگلے چند دنوں میں متوقع ہے۔

اصولی طور پر تو عام انتخابات کی طرف ہی پیش رفت ہونی چاہیے تھی مگر جو سیاسی کشیدگی موجود ہے اس میں مفاہمت کے امکانات کم ہیں۔ ایسی صورت میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد سے ملکی سطح پر انتخابی ماحول بن گیا ہے۔ اگرچہ حکومتی کوشش ہے کہ بدترین معاشی بدحالی، انتخابات سے قبل نئی مردم شماری، سیکورٹی اور دہشت گردی کو بنیاد بنا کر انتخابات میں تاخیر کی جائے مگر سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے لیے سیاسی دیوار بن گیا ہے۔

اگر حکومت انتخابات سے کوئی بھی فرار کا راستہ اختیار کرتی ہے تو اسے ہر صورت میں سپریم کورٹ میں قانونی محاذ پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قومی سیاست کی سطح پر ہم عمران خان کی جانب سے عدلیہ بچاؤ مہم یا عدلیہ کے ساتھ کھڑے رہنے کا بیانیہ جبکہ مسلم لیگ نون کی جانب سے عدلیہ مخالف مہم دیکھ رہے ہیں جو کسی بھی صورت میں ملک کے مفاد میں نہیں۔ کیونکہ اس طرز کی مہم بلاوجہ اداروں کو متنازعہ بھی بنائے گی اور بلاوجہ کا قانونی پلیٹ فارم پر ٹکراؤ کی صورت بھی نمایاں ہوگی۔

عمران خان کو اس وقت قومی سیاست میں ”بیانیہ کی جنگ“ میں سیاسی برتری حاصل ہے۔ اول وہ اس وقت تمام سرکاری و غیر سرکاری یا عالمی سروے کے نتائج میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں سب سے زیادہ سیاسی مقبولیت رکھتے ہیں۔ دوئم اقتدار سے نکلنے کے بعد جتنے بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات ہوئے ان میں سے بڑی تعداد میں وہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں کامیاب ہوئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ ان کو اس وقت انتخابی سیاست میں بھی برتری ہے۔

عمران خان جو اپنے دور اقتدار میں اپنی حکمرانی پر سخت تنقید میں تھے اور ان کی مقبولیت بھی کم ہوئی، مگر رجیم چینج کے سیاسی اسکرپٹ میں ان کی حکومت کی تبدیلی اور شہباز شریف کی وزیر اعظم بننے کے عمل میں ان کو عملی طور پر بہت بڑا سیاسی فائدہ پہنچایا۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد غیر اہم ہو جائے گا اور جو اسے اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت حاصل تھی اس کی محرومی کے بعد وہ ماضی کا حصہ بن جائے گا، سب غلط ثابت ہوا۔

عمران خان نے اپنی مزاحمت سے قومی سیاست میں دوبارہ اپنی سیاسی برتری کو منوایا اور اب وہ مقبولیت بھی رکھتے ہیں۔ جس نے بھی رجیم چینج کا اسکرپٹ لکھا اس نے عمران خان کو نقصان کم اور فائدہ بہت پہنچایا ہے۔ اس عمل میں عمران خان کی مزاحمت، سیاسی جدوجہد اور عوامی رابطہ مہم سمیت ڈیجیٹل میڈیا کا موثر استعمال اور بڑے بڑے تواتر کے ساتھ عوامی جلسوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان کے بیانیہ کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ جہاں رجیم چینج بنا وہیں ان کی بڑی کامیابی اس حکمران اتحاد کی سیاسی اور معاشی ناکامی بھی ہے۔ اس ناکامی نے عمران خان کی حکومتی کارکردگی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے اور لوگ اب اس حکمران اتحاد کے سخت ناقد ہیں۔

عمران خان کے مقابلے میں حکمران اتحاد بالخصوص مسلم لیگ نون کوئی متبادل بیانیہ تشکیل نہیں دے سکی اور عملاً وہ آج بھی بیانیہ کی تلاش میں ہی سرگرداں ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون اور کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن اور عوامی نیشنل پارٹی کامیاب بیانیہ کی محرومی کا شکار ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر ابتدائی سطح پر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے ہوتے ہیں تو ان کو سیاسی محاذ پر بڑی پسپائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ انتخابات کا سیاسی خوف ان کی سیاسی حکمت عملیوں پر غالب نظر آتا ہے۔ مسلم لیگ نون اور جے یو آئی انتخابات کے سخت مخالف ہیں اور اس سے فرار کا راستہ چاہتے ہیں۔ حکمران اتحاد کی حکمت عملی یہ ہے کہ اول تو انتخابات سے فرار اختیار کیا جائے اور اگر انتخابات کا انعقاد کو ممکن بنانا ہے تو عمران خان سیاسی، انتظامی، قانونی محاذ پر سخت مزاحمت دی جائے تاکہ وہ اپنی بھرپور انتخابی مہم ہی نہ چلا سکیں۔ اس کے لیے ان کی سیاسی گرفتاری، نا اہلی، مقدمات میں الجھانے، سیکورٹی کی بنیاد پر ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرنا ان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

اسی ماحول میں حکمران اتحاد کی بڑی امید مریم نواز سے بھی وابستہ ہے۔ مریم نواز عمران خان کے مقابلے میں متبادل بیانیہ تشکیل دینا چاہتی ہیں مگر ان کو بھی مزاحمت کا ہی سامنا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مریم نواز کو یہ کہنا پڑا کہ موجودہ حکومت ان کی حکومت نہیں اور انہوں نے حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے خود کو حکومتی حمایت سے دور رکھا ہوا ہے۔ وہ جانتی ہیں ہیں موجودہ حکومت اور ان کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں میں جو غم و غصہ ہے۔ اسی طرح مریم نواز کو اپنی پارٹی کے چند بڑوں کی جانب سے بھی عملاً مزاحمت کا سامنا ہے اور اس کا اعتراف انہوں نے خود بھی کیا ہے کہ حکومتی معاشی ناکامی نے ہمیں دفاعی پوزیشن پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

مسلم لیگ نون سمیت دیگر حکومتی اتحادیوں نے عمران خان کے خلاف کرپشن، بدعنوانی، ممنوعہ فنڈنگ، توشہ خانہ، ٹیریان سمیت دہشت گردی، توہین عدالت، توہین مذہب، توہین ججز یا توہین الیکشن کمیشن سب ہی کارڈ کھیلے ہیں یا کھیل رہے ہیں مگر ان کے سیاسی داؤ پیچ نتائج دینے میں ناکام ہیں۔ اسی طرح یہ بیانیہ کہ معاشی بدحالی ان کی نہیں بلکہ عمران خان حکومت کی پیدا کردہ ہیں موثر ثابت نہیں ہو رہا اور عمران خان کی اپنی سیاسی مہم جو سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا پر غالب ہے اس کا مقابلہ مشکل نظر آتا ہے۔

اور سیز پاکستانیوں کی بڑی تعداد اور سوشل میڈیا پر ان کی عمران خان حمایت مہم بھی حکومت کے لیے مشکل پیدا کر رہی ہے۔ حکومت کا خیال تھا کہ اسٹیبلیشمنٹ جس کی مدد سے عمران خان کا اقتدار ختم ہوا ہے وہ خود اسے نمٹ لے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے تناظر میں حکمران اتحاد کا بڑا انحصار اسٹیبلیشمنٹ پر تھا مگر خود اسٹیبلیشمنٹ کو عمران خان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

عمران خان مخالف بیانیہ میں حکمران اتحاد بہت پیچھے چلا گیا ہے اور اگر عمران خان کو قانونی بنیاد پر سیاست سے دور رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا بھی سخت ردعمل سامنے آئے گا جو خود پی ٹی آئی کے لیے سودمند ہو سکتا ہے۔ حکمران اتحاد اپنے بیانیہ کی تشکیل میں بہت پیچھے چلا گیا ہے اور جو اس وقت ملک کی معاشی صورتحال ہے اور جس کا سارا نزلہ موجودہ حکومت پر گر رہا ہے ایسے میں انتخابات کے تناظر میں سیاسی بیانیہ کی تشکیل کا عمل اور پیچھے چلا جائے گا۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ رجیم چینج کے بعد حکومت کا بننا بالخصوص مسلم لیگ نون کے لیے گھاٹے کا سودا ثابت ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments