حق دو تحریک خواتین اور 19 مارچ


دسمبر 2021 ء میں جب گوادر حق دو تحریک نے گوادر میں خواتین کو یکجا کرنے کا عمل شروع کیا تو یہاں کراچی شہر میں بیٹھ کر ہمارے بھی ذہنوں میں بہت سارے سوالوں نے جنم لیا۔ راجی بلوچ وومن فورم کی ٹیم وہاں خواتین اور مردوں کے اس تحریک کے لیے کام کرنے والی خاتون ”ماسی زینی“ سے ملنے کے لیے نہ صرف بے چین ہوئی بلکہ اس نے ان تمام خواتین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کا ٹھان لیا۔ وسائل کے کمی کے باوجود تین لڑکیاں یہاں سے گئیں اور انہوں نے 4، 5 دسمبر 2021 ء میں گوادر حق دو تحریک میں بھرپور شرکت کر کے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

یہ گوادر حق دو تحریک ہی تھی جس نے چلتے چلتے ”حق دو تحریک بلوچستان“ کی صورت اختیار کرلی اور بلاشبہ اس میں لوگوں بالخصوص عورتوں کی شمولیت زیادہ تر ہوتی چلی گئی۔ اسی بات کے کا تجزیہ کرنے میں پہلی بار حق دو تحریک کی خواتین سے ملنے گوادر ان کے صدف ریسٹورنٹ والے مین دفتر میں گئی۔ خواتین کا مجھ سے ملنے آنا اور اپنے قائد کے بلا جواز گرفتاری پر غصے کا اظہار ہی ان کا تحریک سے جڑے رہنے کا جوش اور جذبے کو بیان کر رہا تھا۔

دراصل اکتوبر 2022 ء سے جاری حق دو تحریک کے احتجاج و دھرنے پر 26 دسمبر 2022 ء کو حکومت کی طرف سے ضلعی انتظامیہ، پولیس، فورسز اور دیگر اداروں نے مل کر حملہ کیا اور تحریک کو ملیا میٹ کرنے کے لیے تحریک کے سب سے اہم و مرکزی رہنماء حسین واڈیلہ سمیت تقریباً مزید 20 دیگر کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ جس کے بعد ہنگامی اور ناخوشگوار حالات سامنے آنا شروع ہوئے۔ یہ ہنگامی حالات مستقل تین دن جاری رہے جس میں خواتین نے بھرپور حوصلے کے ساتھ اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔

اس سبب شہر گوادر میں حالات کشیدہ رہے، مشتعل ہجوم نے سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی۔ جہاں جہاں ہوٹل عام پبلک بھی اپنے ہوٹل یا دکانیں کھول کر بیٹھ جاتے تو عورتیں ان پر دعویٰ بول دیتیں۔ ”ہم اس دوران تکلیف کے عالم سے دوچار تھے اور بہت سارے لوگ اپنے ہوٹل کھول کے چیزیں بھیجنا شروع کر دیتے تھے، ہم مجبوراً ان کے ہوٹل کی چیزوں کو توڑ کر رکھ دیتے۔ کیونکہ ہم تو انہی کے لیے احتجاج کرنے نکلے تھے۔“

(صائمہ، فرضی نام)

شاہد پولیس کا بھی اپنا اس دوران کافی نقصان ہوا ہو گا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس پورے دورانیے میں خواتین کو کیوں اس قدر نشانہ بنایا گیا۔ لوگوں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ 26 دسمبر سے 12 جنوری 2023 ء تک انتظامیہ، پولیس اور دیگر ذمہ دار اداروں کا جو رویہ گوادر کے شہریوں کے ساتھ رہا وہ انتہائی آمرانہ و متشدد تھا، گویا گوادر شہر کو فتح کیا جا رہا ہو۔ پولیس اور اس کے مدد گار طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے، جو امن و امان قائم رکھنے کے قانونی ذمہ داری سے زیادہ انتقامی کارروائی نظر آتی ہے۔

ایسے کئی واقعات زبان زد عام ہیں کہ گرفتاری و چھاپوں کے دوران شہریوں کو زد و کوب کرنا، سامان کی توڑ پھوڑ اور چرانا وغیرہ شامل ہے۔ یہ طرز عمل کسی بھی طور حکومت، حکومتی ادارے، پولیس یا انتظامیہ کا شایان شان نہیں تھا۔ ”میں اپنے ہاتھ میں لاٹھی لے کر سب سے آگے آگے تھی اور باقی عورتیں میرے پیچھے۔ جب تک پولیس والے آس پاس یا آگے نظر آتے تھے اس وقت تک کوئی ڈر و خوف نہیں ہوتا تھا لیکن جیسے ہی فورسز سامنے سے آتے خوف خود بہ خود کہیں سے گھیر لیتا تھا۔“

(مہناز، فرضی نام)

حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن جو حالانکہ خود 12 جنوری 2023 ء کو گرفتاری دینے سیشن کورٹ آئے تھے۔ لیکن مولانا کی پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ خواتین ونگ نے بھی ڈسکشن کے دوران اس بات پر اعتراضات اٹھائے کہ مولانا کو بھلا کیوں اس انداز میں گرفتار کیا گیا جیسے کسی مجرم کو گرفتار کیا جاتا ہے؟ اوپر سے خود گرفتاری دینے کے باوجود بھی اس کے ساتھ سیاسی سلوک کم اور بدلہ لینے کا عنصر زیادہ روا رکھا گیا؟ جب اس حوالے سے میں نے خواتین سے پوچھا تو ان کے بقول حق دو تحریک کے گرفتار لیڈر شپ و حامیوں کے ساتھ یہاں اچھا سلوک نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو ہمیشہ کم دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ وہ سچ کی بات کرتے ہیں، وہ حق کی بات کرتے ہیں۔ ماسی زینی جو شروع دن سے حق دو تحریک کے ساتھ رہی ہیں انہوں نے اس تحریک کے ساتھ نہ صرف خود جڑے رہنے کی بات کی بلکہ یہ بھی کہا کہ جتنا ہو سکتا ہے وہ اپنے قائد کے لیے آواز بلند کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ان کا ساتھ دیں گی۔ میرے ایک سوال پر کہ اب تک ینگ جنریشن یا لڑکیوں کو ہم اس تحریک سے کتنا نزدیک پاتے ہیں۔ ماسی زینی نے اس کے لیے بیٹھے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ یہ نئی قیادت ہے اور اپنے ہی گھر کی بہو کا بتایا جو اس تحریک سے مکمل طور پر جڑ چکی ہیں۔ لیکن بقول ان کے اس میں وہ اپنا کردار کم دیکھتی ہیں اور اپنے بیٹے کی رضامندی زیادہ، کیونکہ آج بھی یہاں سماج میں عورت مرد کے اجازت کے بغیر اپنا فیصلہ نہیں لے سکتی۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کیونکہ ”عورت جس مرد کے گھر میں کھاتا ہے اسی کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے، لیکن میرے بیٹے نے اسے منع نہیں کیا یہ ایک اچھی بات ہے۔“

بہت ساری خواتین کونسلرز جو اپنے علاقے کی قیادت کرتی ہیں اس دوران بیٹھی ہوئی تھیں۔ لیکن وہاں بھی مجھے تین کیٹیگری کی خواتین ملیں۔ ایک وہ جو اپنی قیادت خود سنبھالتی ہیں کیونکہ ان میں وہ قابلیت ہے، دوسری وہ جو ابھی تک کسی کے سامنے بات کرنے سے قاصر ہیں لہٰذا ان کے قیادت کو ٹیم کی باقی خواتین ’مدد‘ کر کے سنبھال رہی ہوتی ہیں اور تیسری وہ جو خود بات کر کے اپنی وضاحت دے سکتی ہیں مگر سماج میں انہیں غیر شادی شدہ یا کسی اور وجہ سے ابھی بات کرنے کا ’درجہ‘ نہیں دیا گیا لہذا ان کی قیادت ان کے گھر کی بڑی خاتون کریں گی۔

نئی قیادت میں شامل ایک خاتون سے ملاقات کا کافی اچھا اثر پڑا۔ یہ ان لوگوں میں ہیں جو وومن لیڈرشپ کے لیے خود کو تیار کر رہی ہیں بس انہیں صحیح راستے اور گائیڈ لائنز دیے جائیں۔ ”میرے شوہر کسی اور پارٹی میں شامل ہیں لیکن جب میں نے مستقل مولانا ہدایت الرحمن کے ڈیمانڈ کو سنا جو وہ گوادر کے لوگوں کے بارے ہی حکومت کے سامنے پیش کر رہے تھے تو میں ان سے بہت متاثر ہوئی۔ مجھے لگا کہ ہمارے اصل لیڈر تو یہ ہیں جو اپنے غریب عوام کے درد کو سمجھتے ہیں۔

جو جانتے ہیں کہ گوادر کے ماہگیر کو ماہی گیری کرنے کے لیے سمندر میں جانے کی اجازت چاہیے، اسے بارڈر کا مسئلہ ہے کہ جہاں سے ہمارا ہی سامان اور ڈیزل آتا جاتا ہے، ہمارے ماہی گیروں کو ٹرالر مافیا کا مسئلہ ہے، بلوچستان کو مسئلہ ہے تو مسنگ پرسنز کا۔ لہذا میں نے اپنے شوہر سے کہا میں نے ان کے گروپ میں جانا ہے۔ پہلے تو نہیں مانے، بہت زیادہ اعتراض اٹھائے لیکن بالآخر خود کہا جو بہتر سمجھو۔ آج وہ اپنے پارٹی کے ساتھ اور میں اپنی تحریک کے ساتھ با خوشی کام کر رہے ہیں۔ ہم ہماری ذاتی زندگی میں اسے کہیں نہیں لاتے۔ گھر والوں کو بھی انہوں نے کہا ہے کہ وہ مجھے میرے طریقے سے کام کرنے دیں۔

(ماریہ، فرضی نام)

ان خواتین سے ملنے سے پہلے شاہد میں بھی کہیں کہیں سوچ کر حیران تھی کہ مولانا ہدایت الرحمن کی وہ کون سی بات تھی جس نے گوادر کی تاریخ کے اوراق کے لیے اتنے سارے بلوچ خواتین کو یکجا نکلوایا۔ لیکن اب کے بار 26 فروری 2023 ء کو ان کے ساتھ گیدرنگ سے مجھے کچھ زیادہ سوچنے کا موقع ملا کہ پاکستانی ریاست جس طرح معیشت کی تباہ حالی کی طرف جا رہی ہے، اور حکومتی ادارے اپنے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے انہیں غربت کی لکیر سے نیچے کی طرف دھکیلتے چلے جا رہے ہیں یہ سب اسی غم و غصے کو نکالنے کا مجموعی تاثر دیتے ہیں۔

خواتین سے ملنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے احتجاجی مظاہروں کو کرنے کے لیے اسی طرح تیار تھیں جس طرح انہوں نے 2021 ء اور 2022 ء میں کیے تھے لیکن اب کے بار فرق صرف ان کے قائدین کی طرف سے ملنے والے اشاروں کا تھا۔ کیونکہ اب وہ احتجاج خاص اپنے لیڈر / قائد مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کے لیے کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ”مولانا ایک پر امن رہنما ہے۔ جب ہم نے اسے اپنی رہنمائی دی اور آج سے سال پہلے اس نے احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے اپنے تمام عوام کے سامنے یہ کہا کہ میرے ساتھ چلنے والے تمام لوگوں کو پرامن رہنا پڑے گا۔ ہم امن کے ذریعے اپنی جنگ جیتیں گے۔ اسی لیے آج تک ہم بیٹھے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔ بس ہمیں انتظار ہے کہ کب ہمیں ہمارے قائد کی طرف سے اشارہ ملے، پھر ہم بھی اپنا احتجاج ان کے لیے کریں گے جنہوں نے پورے عوام کے لیے احتجاج کیا۔“

(ماسی زینی)

حق دو تحریک کی خواتین نے گوادر ڈسٹرکٹ کے تمام شہروں میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود بھی فروری 2023 ء میں ماہل بلوچ کے لیے اپنی آواز بلند کی۔ لیکن وہ مولانا ہدایت الرحمن کے لیے آواز اٹھانے سے شاہد اس لیے بھی گریز کرتے رہے کہ پہلے وہ اپنے مرکزی رہنماء حسین واڈیلہ سمیت اپنے کارکنوں کی رہائی اور ساتھ چاہتے تھے اور اس کے علاوہ مولانا کو اس طرح منظر عام پر لایا بھی نہیں جا رہا تھا، جب کہ اب مولانا کو مکمل طور پر سامنے لایا گیا ہے جس کی وجہ سے خواتین نے خود اپنا بیان گوادر ہائیکورٹ کے سامنے میڈیا کو انٹرویو کی صورت میں دے دیا۔

یہاں تک کہ گوادر حق دو تحریک کے فیس بک پیج کے علاوہ مولانا کے پیشی والے دن 19 مارچ کو انہوں نے ’خواتین‘ کے احتجاج کا اعلان بھی کر دیا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ احتجاج بھی پچھلے تمام احتجاجوں کی طرح پر اثر، پرجوش اور پرعزم رہے گا یا اس میں لوگوں بالخصوص ہر طبقہ فکر کے خواتین کی توجہ اس جانب مرکوز کروانے میں تحریک کے با اثر لوگوں کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیونکہ جنوری 2023 ء میں وزیراعلٰی بلوچستان نے ماہی گیروں کے ڈیمانڈ کے پیش نظر انہیں سب سے بڑھ کر لیبر ایکٹ کے تحت ’محنت کش‘ کا درجہ دے دیا ہے جس پر اب تک کسی بھی صوبے میں عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

ماہی گیروں کو صحت کارڈ اور بوٹ انجن کی سہولتیں فراہم کرنے کا پلان شیئر کیا گیا۔ جس سے ان کے زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوں گی۔ یقیناً حکومتی اداروں سے منسلک پالیسیوں پر عمل درآمد اتنا آسان نہیں ہوتا لیکن چونکہ بات چھیڑی جا چکی ہے جو کہ تحریک کو کمزور کرنے کے لیے بطور حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ویسے تو ہمارے یہاں عورتوں کو آگے رکھ کر پیچھے دھکیلنے کا کام باآسانی کیا جاتا ہے اگر حق دو تحریک حق پہ رہے اور عورتوں کی شمولیت کو یقینی بنائے تو وہ اپنا راستہ خود تلاشیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments