ڈارون کی مشہور زمانہ کتاب پر ایک تاثر


زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر انسان صدیوں سے سوچ رہا ہے۔ سوال اور اس کے حل کے لیے انسان کی جدوجہد اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان خود۔ سوال کے بہت سارے جواب پیش کیے جا چکے ہیں جو کے دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ پہلا اور بڑا گروہ، جس کا تعلق اہل مذہب سے ہے، اس بات کا قائل ہے کہ زندگی کی تمام شکلیں جو آج موجود ہیں ایسے ہی خاص طور پر پیدا کردہ ہیں۔ دوسرا گروہ، جو کسی طرح بھی اب تعداد میں کم نہیں ہے اور جس کا تعلق زیادہ تر مذہب بیزار لوگوں سے ہے، اس خیال سے متفق ہے کہ زندگی ارتقاء پذیر ہوئی ہے اور ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے ان تمام شکلوں میں موجود ہے جس کا آج ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے گروہ میں سائنسدان شامل نہیں ہیں اور دوسرے گروہ کو اہل مذہب کی کوئی بھی حمایت حاصل نہیں ہے۔

پہلے نظریہ کو نظریہ پیدائش کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا نظریہ ارتقاء کہلاتا ہے۔ پہلے نظریہ کے قائلین کا مطالعہ کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں اور ان سے متفق سائنسدانوں کی کتابوں اور دوسرے نظریہ کے فہم کے لیے ڈارون کی شہرہ آفاق کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

کتاب نظر سے گزر چکی تھی اور کافی مدت سے میرے کتابوں کے کمرے میں نمایاں جگہ پراس طرح رکھی تھی جیسے دعوت فکر دے رہی ہو۔ کچھ روز پہلے یہ بات دماغ پر سوار ہو گئی کہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ڈارون کیا کہتے ہیں اور کیا نظریہ ارتقاء قرآن حکیم کے ساتھ کوئی مطابقت رکھتا ہے؟

کتاب کھولنے سے پہلے سوچا کہ اگر کتاب پر کسی پروفیسر کے دروس مل جائیں تو پہلے ان کو سن لوں تاکہ فہم کتاب میں آسانی رہے۔ تلاش کرتے ہوئے پروفیسر رچرڈ ڈاکنز تک جا پہنچا۔ پروفیسر صاحب کے وہ پانچ دروس جو انھوں نے 1991 میں کرسمس کے موقع پر نظریہ ارتقاء کے موضوع پر دیے تھے میں نے سن لیے۔ اس کے علاوہ ان کے مباحثے جو انھوں نے مختلف لوگوں کے ساتھ کیے وہ بھی سن لیے۔ ان دروس نے میرے دماغ کو کتاب پڑھنے کے لیے مکمل طور پر تیار کر دیا۔

کتاب شروع کردی اور کئی روز کی کوشش کے بعد کل شام بالآخر ختم کرلی۔ کتاب بلاشبہ نہایت دلچسپ اور علمی اعتبار سے بہت بلند ہے۔ کتاب کیا ہے ایک اہل علم و تحقیق کے عمر بھر کے مطالعہ اور تلاش کی نہایت خوبی سے تحریر کردہ نگارش ہے۔ کتاب استقرائی طریقہ تحقیق کی بہترین مثال ہے۔ ، تحقیق کے سچے طالب علم کتاب سے اتفاق کیے بغیر بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

کتاب کو پڑھنے والا کتاب اور مصنف کے علمی مقام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

کتاب واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ پہلے حصے، باب 1 تا 5، میں مصنف نے اپنا نظریہ پیش کیا ہے اور دوسرے حصے، باب 6 تا 14، مصنف نے نظریہ کی مشکلات اور اس پر اٹھنے والے سوالوں کا نہایت خوبی سے جواب دیا ہے۔

کتاب بتاتی ہے کہ زندگی قدرتی انتخاب کے اصول پر ارتقاء پذیر ہوئی ہے اور یہ ارتقاء کروڑوں سالوں میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ زندگی کی ابتداء اتنی سادہ تھی کہ پہلا جاندار شاید ایک خلیہ پر مشتمل تھا، اور پھر زندگی سادگی سے پیچیدگی کی طرف بڑھتی رہی، اور پھر اتنی شکلیں اختیار کرتی گئی کہ آج شمار ممکن نہیں۔ آسان زبان میں قدرتی انتخاب کا اصول یہ ہے کہ جو خواص فائدہ مند تھے وہ باقی رہے اور جو کمزور تھے وہ مٹتے گئے۔ اسی اصول پر جانداروں کی وہ انواع جو اپنے ماحول سے مطابقت رکھتی تھیں اور مقابلے کی صلاحیت رکھتی تھیں وہ باقی رہیں اور جو کمزور تھیں مٹتی گئیں۔

کتاب بتاتی ہے کہ زندگی کی ابتداء ایک ماخذ سے ہوتی ہے جو پودے کی مانند بڑھتی گئی اور شاخیں نکالتی گئی۔ کسی شاخ سے پیٹ کے بل رینگنے والے جانور نکلے، کسی سے اڑنے والے، کسی سے چار ٹانگوں پر چلنے والے اور کسی سے دو ٹانگوں پر چلنے والے۔ اسی طرح نباتات پیدا ہوئے جن میں سے کچھ پانی میں ہوتے ہیں اور کچھ خشکی پر۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی ہر شکل دوسرے کے ساتھ نسبت اور تعلق رکھتی ہے۔ یہ بات کچھ لوگوں کے لیے مشکل کا باعث ہے جبکہ مجھے بہت معانی خیز لگی۔ کتاب کا آغاز انسان کے ہاتھوں پیوند کاری کے ذریعے پودوں اور جانوروں میں لائی جانے والی تبدیلی سے ہوتا ہے۔ مصنف نے کبوتروں، گھوڑوں، کتوں اور دیگر انواع میں پیوند کاری کے ذریعے لائی جانے والی تبدیلی کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔ پہلے باب میں یہ دکھا کر کہ کیسے انسان نے مختلف انواع کو ڈومیسٹکیٹ کیا ہے اور بہت ساری اقسام پیدا کروائی ہیں، دوسرے باب میں یہ دکھایا ہے کہ اگر یہ سب انسان کے ہاتھوں انجام پا سکتا ہے تو قدرت خود ایسا کیوں نہیں کر سکتی۔ یہ دلیل جاندار ہے اور قدرتی انتخاب کا نظریہ بھی دلیل سے خالی نہیں۔ کتاب میں نوع اور قسم پر کی جانے والی بحث دلچسپی سے خالی نہیں، البتہ کچھ مشکل ضرور ہے۔

نظریہ کی مشکلات اور اس پر اٹھائے جانے والے سوالات و اعتراضات وزنی بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔ یہ اعتراض کہ اگر ارتقاء ہوا ہے تو اب ہم درمیانی انواع کو دیکھ کیوں نہیں سکتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدرتی انتخاب کا عمل بے حد سست رفتار ہے اور اس کے اثرات ہزاروں سالوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ارتقاء کا ثبوت ہمیں فوسل کی شکل میں ملتا ہے جو قدرت نے اپنے انداز میں محفوظ رکھا ہے۔

وہ ابواب جن میں جبلت اور ہائبرڈ اقسام پر بات ہوئی ہے توجہ کے طالب ہیں۔ جبلت اور عادت میں فرق بھی معلوماتی ہے۔ حشرات کی دنیا کے متعلق پڑھتے ہوئے بالکل ایسے لگا جیسے انسانوں کے بارے میں پڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر چینٹیوں میں دوسروں کو کمسنی میں اغوا کرنا، غلام بنانا اور پھر ان سے بیگار لینا۔ کچھ پرندوں کا دوسرے گھونسلوں میں انڈے دینا اور ان کے بچوں کا سوتیلے بہن بھائیوں کو پیدا ہوتے ہی گھونسلوں سے باہر پھینک دینا۔ شہد کی مکھی کا چھتا بنانا اور اس کا ریاضی کے اعتبار سے ایک معجزہ ہونا سب جبلت کے کرشمے ہیں۔ اور یہ سب قدرتی انتخاب کے اصول کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے۔

نباتات و حیوانات میں رنگ و بو اور بولیاں صرف بنی نوں انسان کی تسکین طبع کے لیے نہیں ہیں بلکہ دراصل ان کی بقا و افزائش نسل کا ذریعہ ہیں۔

ہائبرڈ انواع میں بانجھ پن اور اس کی وجوہات کم دلچسپ تذکرہ نہیں ہے۔

کتاب کے آخری ابواب نامکمل جیالوجیکل ریکارڈ کا ذکر لیے ہوئے ہیں اور یہی نامکمل ریکارڈ ہی مزید ثبوت پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جیسے جیسے ریکارڈ سامنے آتا جائے گا ہم جانتے جائیں گے کہ کرہ ارض کن کن انواع کا مسکن رہا ہے اور ہر نوع کس قسم کی تبدیلی سے گزری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کتاب علم میں اضافہ کرتی ہے اور کئی لحاظ سے سوچنے کا موقع دیتی ہے۔ کتاب کو ہم ایک بہترین اور مخلص انسانی کوشش کہہ سکتے ہیں جو ایک طرف بہت سی خوبیوں کی حامل ہے تو دوسری طرف اپنے اندر ہر دوسری انسانی کوشش کی طرح خامیاں لیے ہوئے ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد میرا ایمان بڑھا ہے، کیا دلچسپ بات ہے کہ جو نشانیاں کسی کو خدا کے قریب لے آتی ہیں وہ کسی اور کو خدا سے دور کر دیتی ہیں۔
خواہش یہ ہے کہ جنہوں نے اسے نہیں پڑھا وہ اس کو ضرور پڑھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments