محبت کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے


سوچیں آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ دماغ چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے تم آزاد نہیں۔ 14 اگست کو ہم آزاد ہوئے تھے یا بس ایک غلامی سے دوسری غلامی میں داخل ہوئے تھے۔ واردات وہی تھی بس طریقہ واردات بدلہ تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم 75 سال تک سمجھ ہی نہیں سکے کہ آزادی کس چڑیا کا نام ہے۔

جمہوریت کے ٹھیکے دار آخر بتائیں تو سہی جمہوریت کہتے کسے ہیں؟ میری دانست میں جمہوریت عوام کی حکمرانی ہے۔ عوام کو اپنا پسندیدہ نمائندہ چننے کا اختیار، جمہوریت ہے۔ جو عوامی شخصیت ہو، جو عوام کی بات کرے۔ لیکن شاید ہم غلطی پر تھے۔ آج سمجھ آتی ہے جمہوریت کو جو معنی ”انہوں“ نے پہنائے، وہ یکسر مختلف تھے۔ عوام اپنا نمائندہ چنے گی، ضرور چنے گی لیکن ان کے دیے گئے آپشنز میں سے۔ اب وہ آپشنز آپ کی ناک پہ بیٹھیں یا نہیں، پر چننا بہر صورت انہی میں سے ہو گا۔ چننے کا اختیار جو دے دیا تو یہ جمہوریت ہی ہوئی نا۔ واہ۔

اب پاکستانی جمہور کے معانی جان گئے تو اتنی ناراضگی؟ بس اتنا ہی کہا ہے نا کہ اب نمائندہ ہم خود چنیں گے۔ آپ کے دیے گئے آپشنز میں سے نہیں۔ غلام کے آزاد ہونے کا ڈر ہے؟ اپنی بادشاہت ختم ہو جانے کا ڈر ہے؟ ہم محبت کریں گے غلامی نہیں۔ بادشاہ بھی اپنی رعایا کو انسان تو سمجھتا ہی ہے۔ کیڑے تو نا سمجھو۔ ہم آپ کے مقابل نہیں آئیں گے، کبھی نہیں آئیں گے۔ پر انسان سمجھو، کیڑا نہیں۔

مقبوضہ پاکستان میں رات بھر جو ہوا اس کا کیا جواز دیں گے؟ سینا چوڑا کر کے، سر بلند کر کے سیلوٹ کرتے، اگر یہ شیل دشمن پہ مارے گئے ہوتے۔ اس وردی سے ایسی ہی محبت تھی۔ تم نے دشمن کو چھوڑ اپنوں سے لڑنا شروع کر دیا؟ اپنوں کے خون سے ہاتھ رنگ لیے؟ ہمیں محبت کی سزا دے رہے ہو؟ پاکستانیوں کی محبت کا قرض ہے، شہیدوں کے لہو کا قرض ہے، وہ غصب کر کے کہاں جا رہے ہو۔ رکو تو سہی۔ جواب دو اس عوام کو۔ تم مانو گے نہیں لیکن اس عوام کے سر کا تاج عمران خان ہے۔ وہ غلام بنے گا اور نا بنائے گا۔

جرم تو بتاؤ۔ گرفتاری کا جواز تو دو۔ توشہ خانہ؟ اس حمام میں تو سبھی ننگے تھے۔ کھل کر کہتے کیوں نہیں کہ وجہ صرف عمران خان کی مقبولیت ہے۔ جرات نہیں؟ کہتے کیوں نہیں کہ گرفتاری کی وجہ تو کوئی نہیں، بس عمران خان کو رستہ سے ہٹانا مقصود ہے۔ اس کے بڑھتے مجاہدوں کو روکنا مقصود ہے۔ ہاں! وہ مجاہد ہیں۔ اپنے لیڈر کی حفاظت کرتے وہ لوگ مجاہد ہیں۔ تمہاری برابری ہو رہی ہے؟ کیا یہ تکلیف ہے؟ دوسروں کو برہنہ کرتے کرتے تم خود بے لباس ہو چکے ہو۔ اور تکلیف بھی یہی ہے کہ تمہیں برہنہ ساری عوام دیکھ چکی ہے۔ لیکن بخدا ہم خوش نہیں ہوئے۔ تمہارے خلاف نا زیبا الفاظ سن کے دل غمگین ہوا۔ فخر اور غرور تار تار ہو گیا۔

بس اب بہت ہوا۔ تم اور عوام الگ الگ راستہ پر ہو۔ عوام کا راستہ عمران خان تک جاتا ہے۔ اور وہ اپنے رستہ سے ایک انچ ہٹنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کی سربراہی میں عوام خوش ہے۔ تم اس سربراہ کو چھیننا چاہتے ہو۔ گرفتاری تو بہانہ ہے، مقصد تو رستہ صاف کرنا ہے۔ لاشیں گرانا چاہتے ہو۔ گراؤ لاشیں۔ آج تمہارا بھی امتحان ہے۔ نفرت کی کس حد کو چھوتے ہو۔ امتحان اس عوام کا بھی ہے۔ تھک کے ہار مان جاتی ہے یا واضح پیغام پہنچاتی ہے کہ عمران خان کو پہنچنے والی گولی تمہارے سینے سے گزر کے جائے گی۔

اور گولیوں کی بوچھاڑ ہوا چاہتی ہے۔ کیسے بہادر سپہ سالار ہو؟ نہتے عوام کا مقابلہ گولیوں سے کرو گے؟
تو یہیں ہار گیا ہے میرے بزدل دشمن
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا

لیکن عمران خان نے ٹھانی ہے کہ جھکے گا تو صرف خدا کے آگے، زمینی خداؤں کے آگے نہیں۔ لڑائی لڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جب کسی اپنے پیارے سے لڑی جائے۔ پر تم نے وہ بھی سکھا دیا۔ یہ مشکل لڑائی لڑیں گے۔ تم جیت کر بھی ہارو گے، عمران خان ہار کے بھی جیتے گا۔ ان شاء اللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments