زندگی کا رنگ


وہ لوگ جن کا بچپن کسی طور بھی عمومی طور سے اندرون لاہور اور خصوصی طور پہ رنگ محل اور دہلی دروازے سے منسلک رہا ہے وہ رنگوں کے نام ’رنگوں کی مختلف طرز کی عکاسی اور رنگوں سے پیدا کردہ دیدہ زیب تاثر سے ضرور واقف ہوں گے۔ پانی کے پتیلے کے نیچے گیس کی لو جتنی رنگین و سنگین ہوتی ہے‘ اتنی ہی خوبصورتی سے پتیلے میں پڑے پانی سے کپڑوں پہ رنگوں کی بہار آتی ہے۔ رنگوں کی اس جادوگری اور دیدہ زیبی کے پیچھے رنگ ساز کی مہارت کارفرما ہے جو گاہک کی فرمائش اور رنگوں کی مناسبت سے ایسا امتزاج بناتا ہے کہ رنگ بولنے لگتے ہیں۔

بظاہر سادہ سے نظر آنے والے رنگ بھی بھیتر میں کئی راز ’رمز اور مزید کئی رنگ لئے بھی ہو سکتے ہیں۔ کتاب کے سفید صفحوں پہ کالا رنگ‘ غلاف کعبہ کا رنگ ’آنکھ کی پتلی کا رنگ‘ سفید روشنی میں مقید قوس قزح کے رنگ ’یہ سب اپنے آپ میں منفرد ہیں۔ رنگ اپنی ماہیت‘ ہیئت ’کیفیت‘ خاصیت ’حیثیت‘ اہمیت ’جاذبیت‘ شفافیت ’قابلیت اور انفرادیت کے باعث ہی اپنائیت تک پہنچتے ہیں۔ جیسے مفت میں دستیاب سورج کی روشنی کا عام سا رنگ بھی اپنے اندر کے مخفی دھنک رنگ سے دھنگ کر دیتا ہے۔

رنگ آہستہ آہستہ ظاہر ہوتا ہے ’آہستہ آہستہ چڑھتا ہے‘ آہستہ آہستہ پگھلتا ہے ’آہستہ آہستہ اترتا ہے‘ آہستہ آہستہ اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ ایک ہی چیز کے مختلف رنگ بھی ہو سکتے ہیں اور ایک ہی رنگ دو مختلف حالات میں مختلف عکاسی کر سکتا ہے۔ اگر سفید احرام میں لپٹے طواف کرتے نفوس باعث سکوں ہیں تو سفید کفن میں لیٹے اپنے ہی احباب باعث غم و وحشت بھی ہیں۔ ظاہر و باطن کا رنگ بھی ایک جیسا ہونا ضروری نہیں۔ کوئلے کی کان سے ہیرے کا مل جانا بالکل بھی بعید از قیاس نہیں۔ پانی جیسا آفاقی شاہکار بھی رنگ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں میٹھے اور کھارے پانی کا سنگم ہے وہاں بھی رنگ ہی اس کا امتیاز کرتا ہے۔

رنگوں کے اپنے جداگانہ تشخص کو جواز بنا کے اپنے لئے الگ الگ رنگ کی دستار ’پرنے (رومال) ‘ اور پگڑیاں مخصوص کر لی گئی ہیں۔ پنجابی شاعر نے کیا خوب کہا کہ:

روی راج بھیڑ چال چہ رل گئی ساری دنیا
اج کل رب پرنیاں یا پگاں توں پہچان نہیں ہوندا

ترجمہ: روی راج سب دنیا بھیڑ چال کا شکار ہو گئی ہے ’آج کل رب کو پگڑیوں اور رومالوں کے رنگ سے نہیں پہچانا جا سکتا۔

سب سے زیادہ پائیدار ’سب سے زیادہ دیرپا‘ سب سے زیادہ متاثرکن ’سب سے زیادہ لازوال‘ سب سے زیادہ مستحکم ’سب سے زیادہ محفوظ‘ سب سے زیادہ لامتناہی ’سب سے زیادہ مطلوب اور سب سے اہم کہ مسلسل جاری رنگ تو صرف اللہ کا ہی رنگ ہے۔ اسی کے بتائے ہوئے پہ عمل پیرا ہو کے ہم دین و دنیا کی کامیابی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ کیا خوب فرمایا ہے کہ:

[ البقرة: 138 ] (کہہ دو کہ ہم نے ) خدا کا رنگ (اختیار کر لیا ہے ) اور خدا سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ اور ہم اسی کی عبادت کرنے والے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments