’نور جہاں‘: کراچی کے چڑیا گھر میں موجود بیمار ہتھنی اب کس حال میں ہیں؟


پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چڑیا گھر میں موجود ہتھنی ’نور جہاں‘ کی حالت تشویشناک ہونے پر نہ صرف آن لائن پیٹیشن دائر کی گئی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔ نور جہاں اور اُن کے ساتھ چڑیا گھر میں موجود دوسری ہتھنی ’مدھو بالا‘ کی پہلے بھی ایک سرجری ہو چکی ہے۔

کراچی کے چڑیا گھر کے ڈائریکٹر خالد ہاشمی نے تصدیق کی ہے کہ ہتھنی نور جہاں کی طبعیت اس وقت ٹھیک نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ بیمار جانور کے مختلف ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جس کے بعد ان کے مرض کی تشخیص ہو سکے گی۔

تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ نور جہاں کی حالت ’خطرے سے باہر‘ ہے اور وہ مناسب طریقے سے چل پھر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر میں موجود ہاتھی ’کاؤن‘ کے بیرون ملک بحالی مرکز منتقل کرنے کے بعد اس وقت پاکستان میں صرف چار ہاتھی باقی ہیں اور یہ چاروں افریقی نسل کے ہاتھی کراچی میں موجود ہیں۔

ان چاروں ہاتھیوں کی عمریں چاروں 17 سے 18 سال کے درمیان ہیں تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان چاروں کی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔

جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’فور پاز‘ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کی سفارش کی ہے کہ نور جہاں سمیت چاروں ہاتھیوں کو بہتر ماحول میں منتقل کیا جائے ورنہ ان کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

نورجہاں اور دیگر ہتھنیاں کس حال میں ہیں؟

نور جہاں اور دیگر ہاتھیوں کو کب اور کیسے پاکستان لایا گیا تھا، اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے دیکھتے ہیں کہ نور جہاں اور اس کی ساتھی ہتھنی فی الحال کس حال میں ہیں۔

گذشتہ دنوں کے دوران جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور چڑیا گھر جانے والے افراد نے سوشل میڈیا پر بہت سی ایسی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ نور جہاں اپنی ٹانگ میں تکلیف کے سبب چل پھر نہیں سکتی ہے۔

تاہم خالد ہاشمی کہتے ہیں کہ ’نور جہاں ٹھیک نہیں ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ چل پھر نہیں سکتی۔ وہ چل پھر رہی ہے۔ اپنی مکمل خوراک استعمال کر رہی ہے۔ فوری طور پر اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے علاج معالجے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔‘

خالد ہاشمی کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے قبل نور جہاں کے پاؤں کے قریب سوجن ہوئی تھی، یہ سوجن علاج کے بعد ٹھیک ہو گئی تھی تاہم اب اس ہی ٹانگ پر دوبارہ سوجن ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’فور پاز‘ کے ساتھ ویڈیو لنک کے ذریعے رابطے میں ہیں۔ ان کے ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں علاج معالجہ فراہم کیا جا رہا ہے اور ان کے مختلف ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ڈبیلو اے ڈبیلو کی ڈائریکٹر ماہرہ عمر کہتی ہیں کہ جب روزانہ خوراک کی تلاش میں 30 میل تک پیدل چلنے والے ہاتھیوں کو پنجرے میں بند کیا جائے اور ان کو کئی کئی گھنٹے زنجیروں میں رکھا جائے گا تو وہ مختلف مسائل کا شکار ہی ہوں گے۔

نور جہاں اور مدھو بالا اس وقت چڑیا گھر میں ہیں جبکہ سونو اور ملکہ نامی ہتھنیاں کراچی کے سفاری پارک میں ہیں۔

بین الاقوامی ادارے نے ان چاروں کو بہتر جگہ پر منتقل اور بہتر ماحول فراہم کرنے کی سفارشات کی تھیں۔

ہاتھیوں کے ساتھ ’ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے‘

نور جہاں اور ان کے ساتھ موجود مدھو بالا کی کچھ عرصہ قبل دانتوں کی سرجری بھی ہوئی تھی۔ یہ سرجری فور پاز کے ماہرین حیوانات نے کی تھی۔

اس سرجری کے حوالے سے ماہرہ عمر نے بتایا کہ فور پاز کے ماہرین پاکستان آئے اور انھوں نے نور جہاں اور مدھو بالا کا معائنہ کیا تو اس میں انکشاف ہوا کہ ان کے دانتوں میں شدید قسم کا انفیکشن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھیوں کا دانتوں کا نظام آنکھوں سے شروع ہو کر دماغ تک جاتا ہے اور اگر اس میں انفیکشن بڑھ جائے تو وہ خطرے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر دونوں کے منھ میں باقاعدہ کیمرے ڈال کر معائنہ کیا گیا اور پھر فوری طور پر ان کی سرجری ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں یہ توقع پیدا ہوئی کہ اب ان کی زندگیوں کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔

فور پاز کے ہاتھیوں کے ماہر میتھیاس اوٹو نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چڑیا گھر میں موجود نور جہاں کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ چڑیا گھر میں موجود ہاتھیوں کو فوری طور پر مناسب علاج اور ماحول کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چڑیا گھر میں رکھے گئے ہاتھیوں کی نگرانی پر مامور عملہ بھی ہاتھیوں کی دیکھ بھال کے لیے مناسب تربیت یافتہ نہیں ہے۔ ہم نے جب ان کی نگرانی پر مامور ایک عملے سے ہاتھیوں کی صورتحال کے بارے میں بات کی تو اس نے جواب میں کہا کہ قید میں رکھے گئے جانوروں کے لیے یہ صورتحال عام ہے۔‘

رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ’ہاتھیوں کو دانتوں سے لے کر پاؤں تک شدید قسم کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ ہاتھی اپنے جسم کو پوری طرح حرکت نہیں دے پا رہے ہیں۔ ہاتھی ظالمانہ سلوک کا شکار ہیں اور ان کو فوری توجہ اور مدد کی ضرورت ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’برائے مہربانی تحقیقات کریں اور ایکشن لیں۔ اب دنیا میں ظالمانہ رویہ قابل قبول نہیں ہے۔‘

ان ہاتھیوں کو کیسے پاکستان لایا گیا؟

ماہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ان ہاتھیوں کو 2009 میں افریقہ کے ملک تنزانیہ سے 40 ملین روپے کے عوض پاکستان لایا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جب ان کو پاکستان لایا جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان اور پوری دنیا میں کہا گیا تھا کہ ایسا ظلم نہ کریں مگر پھر یہ قدم اٹھایا گیا۔‘

ماہرہ عمر بتاتی ہیں کہ ان چاروں کو ان کی قدرتی آماجگاہ سے پکڑ کر پاکستان لایا گیا تھا۔ اس وقت پوری دنیا میں یہ سوال بھی اٹھا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کی موجودگی میں کس طرح ان کو پاکستان درآمد کیا گیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ہاتھی ایک سوشل جانور ہے۔ مادہ ہاتھی جو کہ آپس میں قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں جب کہ نر ہاتھی اپنی آماجگاہ یا ٹھکانہ بدل لیتا ہے۔ اب ان کو ایک ہی مقام سے لایا گیا ہے۔

ماہرہ عمر کا کہنا تھا کہ ان چاروں کو نہ صرف یہ کہ ان کی ماؤں سے الگ کیا گیا بلکہ ان کو ان دیگر ساتھی ہاتھیوں سے بھی الگ کیا گیا ہے۔ ان کو جب لایا گیا تھا اس وقت ان کی عمریں دو سے چار سال کی تھیں۔ یہ گذشتہ 12 سے 14سال تک قید میں گزار رہے ہیں۔

’سوچنا اور سمجھنا ہو گا کہ ہاتھی بھی جاندار ہے۔ بے گناہ قید اس پر بھی انتہائی برے اثرات ڈالتی ہے۔ صرف تفریح کے لیے قید میں رکھ کر تکلیف پہنچانا ظلم ہے۔ اب ان کو جنگل میں تو نہیں چھوڑا جاسکتا مگر ان کو کاؤن کی طرح بہتر زندگی فراہم کی جا سکتی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments