’میں نے زمان پارک اتنا گندا اور بدبودار پہلے کبھی نہیں دیکھا‘


زمان پارک
صوبائی دارالحکومت لاہورکے تاریخی ایچیسن کالج کے عقب میں مال روڈ پُل سے چند فرلانگ کے فاصلے پر کینال روڈ پر زمان پارک کا چھوٹا سا سائن بورڈ نظر آتا ہے۔ ماضی میں کرکٹ اور اب پاکستانی سیاست میں شہرت رکھنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان کی وجہ سے زمان پارک سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اگرچہ یہ علاقہ ایک رہائشی علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن یہاں کے رہائشی گذشتہ چند روز سے جاری سیاسی مہم اور کشیدگی کی صورتحال سے خاصے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

رواں ہفتے منگل کے روز اسلام آباد پولیس کی ٹیم لاہور پولیس کی نفری کے ہمراہ ڈی آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں وارنٹ گرفتاری لے کر زمان پارک پہنچی تھی۔

اگرچہ اس وقت عمران خان کی رہائشگاہ کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں کی بہت زیادہ تعداد نہیں تھی مگر جو کارکن موجود تھے، انھوں نے احتجاج کیا اور پولیس کو عمران خان کے گھر کی جانب جانے سے روکنے کی کوشش کی جہاں سے پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان تصادم کا آغاز ہوا۔

اس دوران پولیس کی اضافی نفری کو بھی طلب کر لیا گیا اور زمان پارک کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کر دیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے لیے زمان پارک کے باہر موجود پولیس نے پیش قدمی کی تو پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے مزاحمت کی جس کے جواب میں پولیس کی جانب سے اس علاقے میں شدید شیلنگ کی گئی۔

پولیس اور پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے دو روز بعد جب میں زمان پارک کے علاقے میں پہنچی تو یہ میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔

یہاں سب سے پہلے آپ کو ناک میں جلن اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ شدید آنسو گیس کی شیلنگ کے اثرات اب بھی یہاں کی فضا میں موجود تھے۔ سڑکوں اور گلیوں میں پھٹے ہوئے سیاسی پوسٹرز اور گِرے ہوئے کیمپوں کی بھرمار ہے جبکہ ڈنڈا بردار پی ٹی آئی کارکن آپ کو ہر جگہ نظر آتے ہیں۔

زمان پارک

پولیس اور پی ٹی آئی کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے دو روز بعد یہ علاقہ میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے

اِن ہی پھٹے ہوئے پوسٹرز پر سے موٹرسائیکل اور گاڑیاں گزرتے ہوئے زمان پارک کی گلی میں داخل ہوتی ہیں، جہاں ایک طرف کونے میں ’نو یوُز آف ہارن‘ (یعنی ہارن مت بجائیے) کا بورڈ لگا ہوا ہے۔

ان گلیوں میں سے ایک پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے گھر کی طرف جاتی ہے جبکہ دوسری ایک بند گلی کی طرف۔ یہاں پر مجھے ایک نوجوان کھڑا دکھائی دیا، جس نے پوچھنے پر اپنا نام عبدالرحمان بتایا۔

عبدالرحمان سے سیاسی کشیدگی کے بارے میں صرف سوال پوچھنے کی دیر تھی اور انھوں نے فوراً اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’یہاں پر ہم دن میں سو سکتے ہیں نہ ہی رات میں۔ شیلنگ کے دوران ہم لوگ اپنے کمروں میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ باہر نکلنے پر گھر کے برآمدے سے کچھ خالی شیل ملے۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ زمان پارک کے علاقے میں واقع اپنے گھر میں پچھلے 18 سال سے مقیم ہیں اور انھوں نے کبھی اس علاقے میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔

’یہ علاقہ اتنا مختلف تھا کہ ہمارے رشتہ دار صرف اس لیے یہاں نہیں آتے تھے کہ یہاں بالکل خاموشی رہتی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے ہم لوگ گھر میں بند ہیں۔ کھانا لینے جا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو بلا سکتے ہیں۔ اب بہت تنگی ہو رہی ہے اِدھر۔‘

عبدالرحمان نے بتایا کہ ان کے گھر کے بالکل پیچھے ایک اور گھر کی چھت سے پندرہ شیل ملے تھے۔

اس جگہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک گھر آیا جہاں سے ٹیبل ٹینس کھیلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ ایک دفتر ہے اور یہ اس دفتر کا پچھلا دروازہ ہے۔

یہاں پر ہماری بات درویش علی سے ہوئی، جو پچھلے تین سال سے زمان پارک میں رہ رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’کل سے یہاں پر ڈنڈا بردار افراد گھوم رہے ہیں۔ جنھیں یہاں آنے سے روک سکتے ہیں اور نہ کوئی سوال کر سکتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے:

زمان پارک یا ’منی خیبرپختونخوا‘: ’پنجاب پولیس خدا حافظ، اب آپ کے پی میں داخل ہو رہے ہیں‘

’یہ عمران خان کو گرفتار نہیں کر سکتے، اگر کریں گے تو پورے پاکستان میں جنگ شروع ہو جائے گی‘

عمران خان کی رہائشگاہ پر تعینات سکیورٹی اہلکاروں کے مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا خدشہ، وزارت داخلہ نے معلومات طلب کر لیں

زمان پارک

زمان پارک میں ہر وقت پی ٹی آئی کے کارکن ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے اور پہرا دیتے نظر آتے ہیں

’دو دن پہلے تو یہ عالم تھا کہ ہمارے پاس چند پی ٹی آئی کے سابق وزرا آئے اور کہا کہ انھیں پانی چاہیے اور انھیں باتھ روم بھی استعمال کرنا ہے۔ یہ میرے لیے حیرانی کی بات تھی کیونکہ عام دنوں میں یہاں کوئی کسی سے بات نہیں کرتا لیکن ان دو دنوں میں اتنی کشیدگی کے باوجود سب نے ایک دوسرے کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھلے رکھے تھے۔‘

اسی طرح اس دفتر میں کام کرنے والی خاتون مہوش نے ہمیں بتایا کہ ان کو پہلے کچھ پھٹنے کی آواز آئی اور پھر آنکھیں بری طرح جلنے لگ گئیں۔

’میں یہاں 2018 سے آرہی ہوں اور میں نے زمان پارک اتنا گندا اور بدبودار پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ہمیں یہ تک نہیں پتا تھا کہ ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس کس راستے سے لے کر جائیں گے کیونکہ یہاں ایمبولینس کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔‘

اس جگہ سے چند قدم دور سماجی ورکر اور سابق صوبائی وزیر عائشہ اقبال لوگوں کو کچرا چننے کی تلقین کر رہی تھیں۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ یہیں پاس میں ایک ڈاکٹر رہتی ہیں جنھوں نے لوگوں کو سی پی آر دینا سکھایا۔

’اس وقت بس یہی کچھ کیا جا سکتا تھا۔ ایک طرف سے شیلنگ تھی اور دوسری طرف سے لوگ ایک دوسرے کی مدد کو دوڑ رہے تھے۔‘

لیکن دوسری ہی طرف درویش کا کہنا تھا کہ یہاں پر کئی غیر مقامی لوگ بھی موجود تھے جو جھگڑے کو ہوا دینے کا کام کر رہے تھے۔

’اس دوران آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ ایسی صورتحال میں کچھ نہیں کرسکتے اور دونوں طرف سے پھنس جاتے ہیں۔‘

زمان پارک کے علاقے میں رہنے والے کئی اور رہائشیوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا اور اس کی وجہ ’سکیورٹی وجوہات‘ بتائیں۔

پاکستان کا جھنڈا کندھے پر پہنے ایک شخص سے جب ہم نے بات کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے بتایا کہ وہ زمان پارک کے رہائشی تو نہیں لیکن ’یہاں پر جو ہوا وہ بہت تھوڑی قیمت ہے جو یہاں کے رہائشیوں نے ادا کی۔ ہم تو خون دینے کو تیار ہیں۔‘

ساتھ گزرنے والے ایک شخص نے طنزیہ جواب میں کہا کہ ’وہ آپ خود دے دیں۔۔۔ سانوں معافی دیو ہُن۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32546 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments