برصغیر کے مسلمانوں پر قیامت کے ماہ و سال


محی الدین اورنگزیب عالمگیر کی 1707 ء میں وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرتا گیا۔ اودھ، روہیل کھنڈ، دکن اور میسور میں نیم خودمختار ریاستیں قائم ہو گئیں۔ انہیں ایک دوسرے سے لڑانے کا سلسلہ غیرملکی تجارتی کمپنیوں نے بڑی عیاری سے تیز کر دیا۔ انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے ریاست میسور کے حکمران، حیدر علی اور ٹیپو سلطان بند باندھنے کی زبردست کوششیں کرتے رہے جنہیں درپردہ فرانس کی حمایت حاصل تھی۔ فرانس سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے نظام دکن نے انگریزوں سے مدد طلب کی۔

اس چپقلش میں ٹیپو سلطان شکست سے دوچار ہوا اور اس کے بعد برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی جو جنگ پلاسی ( 1757 ء) میں نواب سراج الدولہ کو اس کے سپہ سالار میر جعفر سے سازباز کر کے اور اسے بدترین شکست سے دوچار کر کے پورے بنگال پر قابض ہو چکی تھی، اس نے 1857 ء میں پورے ہندوستان پر قبضہ کر لیا جو تاج برطانیہ کی کالونی قرار پایا۔ 1857 ء کی جنگ آزادی میں پرجوش مسلمانوں کے ساتھ انگریزی غلبے کے خلاف غیر مسلم عناصر بھی شریک تھے۔

جھانسی کی رانی اپنے علاقے میں آزادی کے متوالوں کی قیادت کر رہی تھی، مگر شکست کا سارا عتاب مسلمانوں پر گرا۔ انگریزوں نے حکومت سنبھالتے ہی ان علما کے سر قلم کر دیے جنہوں نے ان کے خلاف جہاد کے فتوے جاری کیے تھے۔ ان کی لاشیں کئی روز درختوں سے لٹکی رہیں۔ انگریز مصنفین لکھتے ہیں کہ پورا دہلی شہر لاشوں سے اٹا پڑا تھا۔ کئی مہینوں تک یہ عالم رہا کہ کوئی مسلمان دہلی میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ خاصی بڑی تعداد میں علما اور مجاہدین کالا پانی جلاوطن کر دیے گئے۔

انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی، اس لیے ان کی سب سے بڑی کوشش انہیں مکمل طور پر بے دست و پا کر دینے کی تھی۔ اس مقصد کے لیے ہندوؤں نے اپنی خدمات پیش کر دی تھیں جو ہندوستان میں بھاری اکثریت میں تھے، چنانچہ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنانے اور ہندوؤں کو ہر شعبے میں آگے بڑھانے کی پالیسی اختیار کی۔ مسلم اشرافیہ شیروانی اور پگڑی کو اپنی تہذیبی علامت کا درجہ دیتی تھی۔ انگریزوں نے سب سے پہلے اس کا وقار ختم کیا اور یہ لباس اپنے چپڑاسیوں اور اردلیوں کے لیے مخصوص کر دیا۔

پھر حکم جاری ہوا کہ زمینوں اور جاگیروں کے مسلمان مالکان اپنی ملکیت کے کاغذات پیش کریں۔ اس سے پہلے ملکیت کے کاغذات رکھنے کا کوئی باقاعدہ نظام ہی نہیں تھا، چنانچہ وہ بڑی تعداد میں زمینوں سے بے دخل کر دیے گئے۔ انگریز حکومت نے مسلمانوں کو مزید زک پہنچانے کے لیے فارسی زبان کو سرکاری معاملات سے بے دخل کر دیا اور اس کی جگہ انگریزی کو رواج دیا۔ اس کے نتیجے میں مسلمان اعلیٰ مناصب سے محروم ہوتے گئے اور سرکاری محکموں میں ان کا داخلہ بتدریج محدود ہو گیا۔

اس کے برعکس انگریز حکمرانوں کی ہمت افزائی سے ہندو سرکاری ملازمتوں پر بھی قابض ہو گئے اور معاشی ترقی کے دروازے بھی ان پر کھلتے چلے گئے۔ مسلمانوں کے لیے ایک آبرو مندانہ زندگی بسر کرنا محال ہوتا گیا۔ معروف برطانوی مصنف سر ولیم ہنٹر نے اپنی تصنیف ”The Indian Musalmans“ میں لکھا ہے کہ 1871 ء میں مسلم اکثریتی صوبے بنگال کے 681 ؍اعلیٰ مناصب پر ہندو براجمان تھے جبکہ مسلمانوں کے حصے میں صرف 92 ؍اعلیٰ عہدے آئے تھے۔ اسی طرح 1852 ء سے 1861 ء کے درمیان کلکتہ بار میں 240 ہندوستانی وکلا رجسٹرڈ ہوئے، ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ تمام صوبائی ہائی کورٹس میں ایک بھی مسلم جج نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر فوجی خدمات بجا لانے کے دروازے بھی بند کر دیے گئے جو ماضی میں ان کے روزگار کا سب سے بڑا وسیلہ تھیں۔

بعض علما نے انگریزی زبان سیکھنے کے خلاف تواتر سے فتوے جاری کیے اور ہندوستان کو ”دارالحرب“ بھی قرار دے دیا۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ انگریزوں کے خلاف جہاد ایک دینی فریضہ ہے۔ اس کے برعکس، ہندو قیادت انگریزوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا چکی تھی اور ان کا نجات دہندہ کی حیثیت سے خیرمقدم کر رہی تھی۔ اس بنا پر ہندو بڑی حد تک پوری سول انتظامیہ پر غلبہ پا چکے تھے۔

اس نئی صورت حال میں ایک طرف مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان بہت فاصلے بڑھ گئے اور دوسری طرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ مسلمانوں نے ہندوؤں پر سات صدیوں کے لگ بھگ حکومت کی تھی، اس لیے انہیں یہ کسی طور گوارا نہیں تھا کہ وہ ان کی تابعداری قبول کر لیں اور اپنا مستقبل ان کی اکثریت کے حوالے کر دیں۔ انہیں اس بات کا بڑا قلق تھا کہ انگریزوں نے 1885 ء میں نیشنل انڈین کانگریس اپنے ریٹائرڈ افسر ہیوم کے ذریعے کھڑی کر کے ہندوؤں کو مستقبل میں سیاسی قیادت سونپ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

کانگریس کے سالانہ اجلاسوں میں انگلستان سے مہمان خصوصی مدعو کیے جاتے جن کی موجودگی میں جو قراردادیں منظور کی جاتیں، ان پر فوری طور پر عمل درآمد ہوتا۔ اس طرح ہندوؤں کی سیاسی جماعت بہت طاقت ور ہو گئی تھی جس کے مسلمانوں کے وجود پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ حکومت برطانیہ نے داخلی نظم و نسق چلانے کے لیے 1861 ء میں انڈین کونسلز ایکٹ منظور کیا جس کا ایک بڑا مقصد مقامی آبادی کو نظام حکومت میں شامل کرنا تھا۔

اس ایکٹ میں گورنر جنرل، پریذیڈنسیز اور گورنروں کے لیے کونسلوں کے قیام کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ گورنر جنرل کی کونسل پانچ ارکان پر مشتمل تھی جن میں تین کا تقرر وزیر ہند کرنے کا مجاز تھا۔ باقی دو کا تقرر تاج برطانیہ کرتا تھا۔ ان میں ایک بیرسٹر اور دوسرا فوج کا کمانڈر ان چیف ہوتا۔ گورنر جنرل قانون سازی کے لیے آٹھ سے بارہ ارکان کا اضافی تقرر کر سکتا تھا۔ اس ایکٹ میں 1862 ء میں ترمیم ہوئی جس کی رو سے گورنر جنرل کی کونسل کے اضافی ارکان کی تعداد بیس تک بڑھا دی گئی اور تمام کونسلوں میں ہندوستانیوں کے تقرر اور نمائندگی کا دروازہ بھی کھول دیا گیا، مگر یہی انتخابی عمل مسلمانوں کے لیے کڑی آزمائش ثابت ہوا۔ وہ تو دور غلامی تھا، مگر آج سب سے زیادہ تکلیف دہ کیفیت یہ ہے کہ ہم آزادی کے پچھتر سال بعد بھی اقتدار کی ہوس یا شوق خود آرائی میں ایک خطرناک سیاسی منظرنامے کی طرف لڑھکتے جا رہے ہیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments