فتح اور فوج سے زیادہ محبت


ہر قوم کو فتح اور فوج سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ سیاستدان آتے جاتے ہیں لیکن فوج سے مستقل محبت کا جذبہ ہر قوم میں قدرتی طور پر موجود ہوتا ہے۔ قوم صرف انہی سیاستدانوں کو ہمیشہ یاد کرتی ہے جو قوم اور ملک کے لئے کوئی اچھے اور تاریخی کام کر کے جاتے ہیں جن کے ثمرات تاحیات ملک و قوم کو ملتے ہیں۔ کوئی بھی سیاستدان مستقل بنیادوں پر فوج مخالف بیانیہ اپنائے نہیں رکھ سکتا کیونکہ قوم کا سیاستدانوں کی بجائے اپنی فوج کی طرف جھکاؤ زیادہ ہوتا ہے۔

ذوالفقار بھٹو نے ایٹمی پروگرام پر کام شروع کروایا اور نواز شریف نے اس پروگرام کو پاء تکمیل تک پہنچایا۔ اس لیے پاکستانی قوم آج بھی ہر موقع پر ان دو سیاسی لیڈروں کو یاد کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل نواز شریف نے اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ لاؤنچ کیا جس کو وقتی طور پر قوم کی جانب سے خوب پذیرائی ملی۔ اس بیانیے کو نواز شریف کی بیٹی نے بھی خوب پرموٹ کیا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا نواز شریف کے لہجے میں نرمی آتی گئی پھر ایک وقت آیا نواز شریف نے خاموشی اختیار کرلی جو تاحال برقرار ہے۔

نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر جنرل باجوہ اور جنرل فیض پر 2018 الیکشن میں آرٹی ایس بٹھانے کا الزام لگایا تو پاکستان میں موجود انہی کی جماعت کے لوگ سب سے زیادہ پریشانی کا شکار رہے۔ ان الزامات کا مسلم لیگ (ن) کو یہ فائدہ ہوا کہ ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں کمی آ گئی۔ پھر آہستہ آہستہ فوج بھی سیاسی معاملات سے دور ہوتی گئی۔ پھر جس دن سینیٹ کے الیکشن میں حفیظ شیخ کے مقابلے میں یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو مسلم لیگ (ن) کو یقین ہو گیا فوج مکمل نیوٹرل ہو چکی ہے۔

یوں ایک دن عمران خان کو بھی نواز شریف کی طرح وزیراعظم ہاؤس سے نکلنا پڑا۔ نواز شریف کے بعد عمران خان نے اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ لاؤنچ کیا جس کو کافی مقبولیت ملی۔ عمران خان نواز شریف کے مقابلے میں اس بیانیے میں دو قدم مزید آگے بڑھ گئے۔ نواز شریف نے فوج کو اپنا آئینی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا لیکن عمران خان نے فوج سے اپنے لیے مدد فراہم کرنے کا بار بار مطالبہ کیا۔ اب عمران خان کو بھی حقیقت معلوم ہو چکی ہے کہ پاکستان میں زیادہ دیر تک فوج مخالف بیانیہ کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے عمران خان نے واضح طور پر سب سے بات چیت کا کہہ دیا ہے۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے عمران خان نے کھلم کھلا سرینڈر کر دیا ہے۔ شاید ان کو نظر آ رہا ہے وہ فوج کی مدد کے بغیر دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتے۔ کچھ لوگ اس کو شہباز شریف سے این آر او مانگنے سے بھی منسوب کر رہے ہیں۔ بظاہر فوج اپنے نیوٹرل رہنے والے اعلان پر قائم دائم نظر آ رہی ہے اس لیے ان کی جانب سے دونوں فریقین سے آپس میں بیٹھ کر بات چیت سے تمام مسائل حل کرنے کا کہا جا رہا ہے کیونکہ اب فوج خود کو مستقل طور پر سیاست سے الگ رکھنا چاہتی ہے۔

فوج اگر مستقل سیاست سے الگ ہوتی ہے تو ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ جلد بحال کر سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں اب کوئی بھی حکومت انفرادی طور پر بڑے فیصلے کرنے کی متحمل نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کو بھی ہر مشکل وقت میں فوج کی مدد لینے کی عادت پڑ چکی ہے۔ یہ فقرہ کہنا بہت آسان ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسحاق نے ملک کے چوٹی کے بزنس مینوں کی آرمی چیف جنرل عاصم سے ملاقات کروائی اور ان کو آرمی چیف کی جانب سے بھر یقین دہانی کروائی گئی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے سیاستدان کمزور ہیں اس لیے ان کو فوج کی مدد لینی پڑتی ہے۔ عمران خان اور شہباز شریف اب شاید حقیقت میں مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ملک کے لئے ہی بہتر ہو گا۔ جہاں تک بات لیول پلیئنگ فیلڈ کی ہے تو وہ کیسی لیول پلیئنگ فیلڈ ہو گئی؟ کیا عمران خان بھی نواز شریف کی طرح نا اہل ہوں یا عمران خان نا اہل ہو اور نواز شریف اہل ہوں؟ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہو گی؟

اس کی وضاحت اب مریم نواز ہی کر سکتی ہیں کیونکہ وہی آج کل اپنی ہر تقریر میں بار بار ایسا مطالبہ کر رہی ہیں۔ نواز شریف ویسے بھی اب ٹرین مس کرچکے ہیں۔ اگلے چار ماہ میں حکومت اپنے مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ گراؤنڈ پر حالات نواز شریف کے حق میں سازگار بھی نہیں ہیں۔ اصولی طور پر نواز شریف کو تین چار ماہ قبل ہی پاکستان آجانا چاہیے اب وہ بہت دیر کرچکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments