مڈل ایسٹ کی جغرافیائی سیاست میں تبدیلیاں


گزشتہ جمعہ کے دن چین کی معاونت سے مڈل ایسٹ میں جاری داخلی کشمکش کے دو بڑے کھلاڑیوں، ایران اور سعودی عرب نے تعلقات کی بحالی اور دو ماہ میں سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کر لیا۔ ریاض نے 2016 میں تہران کے سعودی سفارت خانہ پر ان مظاہرین کی یلغار کے بعد ایران سے تعلقات منقطع کر لئے، جو چند روز قبل سعودی حکومت کی طرف سے شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے پہ مشتعل تھے۔ ایران اور سعودی عرب کئی سالوں سے مشرق وسطیٰ کے متعدد تنازعات والے ممالک میں حریف فریقوں کی حمایت کے ذریعے پراکسی جنگجووں میں الجھے رہے، خاص طور پہ یمن، جہاں تہران حوثی باغیوں اور ریاض جلاوطن حکومت کی حمایت کرتا رہا لیکن دونوں نے تنازعات ختم کرنے کی طرف غیرمعمولی پیش رفت کے ذریعے دنیا کو ششدر کر دیا۔

چین سعودی تیل کا بڑا خریدار ہونے کے ناتے علاقائی سلامتی کے لئے خطرہ بننے والے انتشار سے نجات کا خواہشمند ہے، جیسا 2019 میں ابنائے ہرمز کی آبی گزرگاہوں میں گونج اٹھنے والے دھماکے چین کے دائمی مفادات کے لئے خطرہ بن گئے تھے۔ اگرچہ ایران میں پہلے ہی امریکہ مخالف جذبات کا تاثر گہرا تھا تاہم 2019 کے موسم خزاں کے بعد سے، سعودی عرب میں بھی امریکی کردار کے حوالہ سے بڑھتے ہوئے شبہات نے مایوسی کا عنصر پیدا کیا کیونکہ مڈل ایسٹ کو اسرائیل کے سپرد کرنے کے بعد امریکہ کا سیکورٹی کردار یہاں اب حقیقی تصور نہیں رہا جو امریکہ کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لیے اہم بناتا، چنانچہ سعودیہ نے اپنی سرحدات محفوظ بنانے بارے خود سوچنے کی ضرورت محسوس کی لیکن ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں چین کی تلویث کو تجزیہ کار ”بدلتے ہوئے عالمی نظام“ کی نمایاں علامات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا، جس طرح افغان جنگ نے جنوبی ایشیا پہ امریکی گرفت ڈھیلی کر دی، اسی طرح عراق وار مڈل ایسٹ پہ امریکی تسلط کے خاتمہ کا وسیلہ بن گئی۔ 2019 میں، جب حوثیوں نے سعودی آئل فیلڈ، آرامکو کو نشانہ بنایا، تو اس نے ملک کی تیل کی پیداوار کو عارضی طور پر متاثر کیا، جس کے نتیجہ میں تیل کی عالمی قیمتوں میں 14 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، جو ایک دہائی سے زائد عرصے میں سب سے زیادہ اضافہ تھا، یہی چین کے لیے بدترین صورت حال تھی، خلیج فارس میں تنازعات اس کی توانائی کی فراہمی اور اقتصادی مفادات کو متاثر کر رہے تھے۔

امریکہ جنگجووں کو مہمیز دینے کی خاطر تیزی سے انحراف کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر مڈل ایسٹ کے تنازعات میں ناقابل بھروسا فریق بنتا گیا جبکہ چین نے سعودیہ اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے پہ محنت کی، وہ تنازعہ میں فریق بننے کی بجائے خود کو قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے کی خاطر قابل بھروسا بنانے میں کامیاب ہو گیا، چین کی پیش دستی اس وقت سامنے آئی جب امریکی ذرائع ابلاغ نے اسی ہفتے رپورٹ کیا کہ اسرائیل اور ایران جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

چین کے اسرائیل کے ساتھ بھی کافی گہرے سیاسی و اقتصادی تعلقات ہیں، چنانچہ اس نے ایران کے علاوہ اسرائیلی مقتدرہ کو بھی مینیج کر لیا۔ عام خیال یہی ہے کہ ایران، عرب معاہدہ بدلتے عالمی نظام کی وسیع تر علامت ہے یعنی امریکہ کا عالمی سپر پاور ہونے کا عہد خاص طور پر سرد جنگ کے بعد کا دور ختم ہو رہا ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں سعودی عرب جیسے ممالک کے لئے، امریکہ واحد شراکت دار تھا لیکن اب، ان ممالک کے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں خاص کر چین انہیں اقتصادی، سیاسی اور بہترین فوجی تعاون دینے والا ملک بن کر ابھرا ہے۔

سعودی آئل فیلڈ پر حملہ کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا نے واضح کیا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ساتھ یا اس کے لیے کسی جنگ میں شریک نہیں ہو گا، چین نے اسی کا فائدہ اٹھایا۔ ایران اور سعودی عرب کئی دہائیوں سے خطے میں پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں، جس سے شام، عراق، لبنان اور یمن متاثر ہوئے۔ جب کہ دونوں کے درمیان اب معمول پر آنے والے تعلقات ان کے وسیع جغرافیائی سیاسی اختلافات کے پائیدار حل اور ایسی بات چیت کا بہترین موقع ثابت ہوں گے جو دیرینہ اختلافات کو ختم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

جمعہ کو شائع ہونے والے سہ فریقی بیان میں ایران اور سعودیہ کے مابین 2001 کے سیکورٹی معاہدے اور 1998 کے وسیع تر تعاون کے معاہدات کا ذکر شامل تھا، جو ایرانی انقلاب کے بعد 1980 کی دہائی میں سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد کی ایک اہم پیش رفت تھی، ان معاہدوں میں بہت زیادہ اقتصادی، سیکورٹی، سیاسی تعاون اور اعلیٰ سطحی سفارتی روابط کا عہد و پیماں باندھا گیا تھا۔

عرب ممالک نے اس خبر کا والہانہ خیرمقدم کیا، متحدہ عرب امارات کے صدر کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے ٹویٹر پر کہا کہ متحدہ عرب امارات سعودیہ اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے خیرمقدم کے ساتھ چینی کردار کو سراہتے ہیں۔ عراق کی وزارت خارجہ نے کہا، دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات نئے عہد کی شروعات ہیں۔ عمان کی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، سفارتی تعلقات کی بحالی سے علاقائی اور عالمی سلامتی کو فائدہ پہنچے گا۔

مصری وزارت خارجہ نے کہا ”ہمیں امید ہے یہ معاہدہ خطے میں کشیدگی کم کرنے اور بلاد عرب میں استحکام لانے میں مدد گار ثابت ہو گا۔ یمن میں حوثی شیعہ ملیشیا کے ایک سینئر رکن نے ٹویٹ کیا، خطہ کی اسلامی ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کی ضرورت تھی تاکہ غیر ملکی مداخلت کے نتیجے میں اپنی کھوئی ہوئی خودمختاری کو دوبارہ حاصل کیا جا سکے۔ اس معاہدے کا تصور ضرورت اور خواہش سے پیدا ہوا، سعودیہ اور ایران کو ایسا تنازعہ ختم کرنے کی ضرورت تھی جو دونوں کے لئے مہنگا اور مشرق وسطیٰ کے لئے تباہ کن تھا، چین کی خواہش تھی کہ وہ میچ میکر بنکر اس تزویراتی خلا کو پر کرے، چنانچہ چین، امریکہ اور روس کی طرف سے چھوڑ دیے گئے خطہ میں قابل اعتماد عالمی شراکت دار بن کر سامنے آئے۔

امر واقعہ تو یہی ہے کہ معاہدے پر دستخط ہو گئے لیکن سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد پرانے حریفوں کو جبلی دشمنی ترک کرنے اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے ابھی بہت سے مراحل سر کرنا ہوں گے۔ ریاض اور تہران کے پراکسی تنازعات اور تباہ کن فرقہ وارانہ تعصبات دونوں ملکوں کی قومی سلامتی اور معیشتوں کو تباہ اور معاشروں کو وقف اضطراب رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کی مداخلت نے یمنیوں، شامیوں، عراقیوں، لبنانیوں اور بحرینیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔

اس لئے دونوں طاقتوں کو علاقائی سلامتی کی خاطر پیچیدہ علاقائی ترتیب کی روشنی میں آگے بڑھنے کا نیا اور مشکل راستہ طے کرنا پڑے گا۔ جس کی ابتداء ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریز، مشرق وسطیٰ کے دیگر معاشروں کو نقصان پہنچانے پر اپنی صلاحیتیں برباد کرنے اور اس عمل میں ہتھیاروں کی مہنگی دوڑ میں شامل ہونے کے خبط سے باہر نکلنے سے ہو گی۔ آگے بڑھنے کا ایک نیا طریقہ کشیدگی کو کم کر کے پڑوسیوں کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے مواقع پیدا کرنا بھی ہے۔

تیل کی دولت سے مالا مال دونوں ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شامیوں، یمنیوں اور پراکسی تنازعات کے دیگر متاثرین کی اپنی بکھری ہوئی زندگیوں کی تعمیر نو کا موقعہ دیں، اگر خطہ کے مرکزی کردار معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھیں تو غیر ملکی طاقتوں کو استحصال اور ان کے تنازعات کو بڑھانے کی راہ نہیں ملے گی بلکہ وہ عالمی طاقتوں کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں براہ راست یا پراکسیز کے ذریعے مداخلت کی ہر کوشش ناکام بنا سکتے ہیں۔

بیجنگ، جو ریاض اور تہران کے درمیان ثالثی کی میزبانی کر کے ذمہ دار عالمی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا اور جس نے امریکی اثر و رسوخ کا علاقہ سمجھے جانے والے سخت خطہ میں پیچیدہ تنازعہ کو حل کرنے میں کامیاب حاصل کر کے مڈل ایسٹ میں امریکی کردار کو محدود کر دیا یعنی دیگر علاقائی ثالثوں کے برعکس یہ معاہدہ چین کے لئے اس کے عالمی حریف، امریکا کی قیمت پر منافع بخش سودا ثابت ہوا۔ بظاہر بائیڈن انتظامیہ نے خلیج میں کشیدگی میں کمی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے یمن جنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی لیکن وہ اپنے غصے اور مایوسی کو چھپانے سے قاصر رہا اور خاص طور پر جب واشنگٹن کی طرف سے روس اور یوکرین کے درمیان چینی ثالثی کو روکنے کے بعد بیجنگ مشرق وسطیٰ میں ایک سفارتی پیش رفت کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گیا۔

امریکہ کا مصنوعی مسکراہٹ سے سجا چہرہ اپنی داخلی غصہ کو چھپانے میں ناکام رہا کیونکہ حالیہ پیش رفت سے چین نے، اسرائیل، سعودی عرب کو باہم جوڑنے کے نام نہاد ابراہیم معاہدے کو وسعت دینے یا پابندیوں اور علاقائی دباؤ کے ذریعے ایران پر نیا جوہری معاہدہ مسلط کرنے کے امریکی منصوبے کو کمزور کر دیا، ریاض نے بھی اپنے سفارتی مرکب کو متنوع بنانے کے لئے ایک ایسا رشتہ جوڑ لیا، جس کا مقصد سب سے پہلے اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ دوسرے لفظوں میں سعودی، ایران معاہدہ بدلتے ہوئے خطے اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کا اشارہ ہے۔ جہاں عرب ریاستیں عالمی طاقتوں کے تسلط سے آزاد ہو کر کام کرنے، تعلقات اور اتحاد تشکیل دینے اور ان میں توازن پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments