چینی صدر کا دورہ روس


چین سے ابھی حال ہی میں ایک اہم خبر سامنے آئی ہے کہ صدر شی جن پھنگ 20 سے 22 مارچ تک روس کا سرکاری دورہ کریں گے۔ انہیں اس دورے کی دعوت روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے دی ہے۔ دیکھا جائے تو چینی صدر کا یہ دورہ کئی اعتبار سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ اول تو، دو بڑی طاقتوں کی حیثیت سے چین۔ روس تعلقات کی اپنی ایک جداگانہ اہمیت ہے۔ حالیہ برسوں میں صدر شی جن پھنگ نے صدر پیوٹن کے ساتھ قریبی تبادلے کو برقرار رکھا ہے، دونوں رہنماؤں کی قیادت اور رہنمائی میں چین اور روس کے درمیان ایک نئے دور کے لیے جامع اسٹریٹجک شراکت داری پر مبنی رابطہ سازی نے پائیدار، مثبت اور مستحکم ترقی حاصل کی ہے۔ دونوں ممالک نے بڑے ممالک کے مابین کامیابی کے ساتھ باہمی تزویراتی اعتماد اور ہمسائیگی پر مبنی دوستی اور تعاون کی راہ تعمیر کی ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے ایک نیا نمونہ تشکیل دیا ہے۔

دوسرا، صدر شی جن پھنگ کے روس کے سرکاری دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا، فریقین کے درمیان اسٹریٹجک کوآرڈینیشن اور عملی تعاون کو فروغ دیا جائے گا اور دوطرفہ تعلقات کی ترقی کو نئی رفتار فراہم کی جائے گی۔ اسی حوالے سے چینی وزارت خارجہ نے بھی بتایا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور اہم طاقتوں کی حیثیت سے، چین اور روس کے تعلقات کی اہمیت اور اثر و رسوخ دو طرفہ دائرہ کار سے کہیں زیادہ ہے۔

صدر شی جن پھنگ کا آئندہ دورہ روس ”دوستی“ کا دورہ ہو گا جس سے چین اور روس کے درمیان باہمی اعتماد اور افہام و تفہیم کو مزید گہرا کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے عوام کے درمیان نسل در نسل دوستی کی سیاسی بنیاد اور رائے عامہ کی بنیاد کو مستحکم کیا جائے گا۔ یہ ”تعاون“ کا دورہ ہو گا جس میں مختلف شعبوں میں سود مند باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، ”دی بیلٹ اینڈ روڈ“ کی تعمیر کو مضبوط کیا جائے گا اور دونوں ممالک کو اپنے احیا اور متعلقہ ترقیاتی اہداف کے حصول میں مدد ملے گی۔

یہ ”امن“ کا دورہ ہو گا اور دونوں فریق عدم صف بندی، عدم محاذ آرائی اور کسی تیسرے فریق کو نشانہ نہ بنانے کے اصولوں کی بنیاد پر حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کریں گے، بین الاقوامی تعلقات کی جمہوریت کو فروغ دیں گے، کثیر قطبی عالمی پیٹرن کی تعمیر کریں گے، عالمی گورننس کو بہتر بنائیں گے اور عالمی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

تیسرا، چینی صدر کے اس دورے سے یہ توقع بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ چین یوکرین بحران پر اپنے حقائق پر مبنی اور منصفانہ موقف کو برقرار رکھتے ہوئے امن قائم کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرے گا۔ یوکرین بحران کو ایک سال ہو چکا ہے اور ہنوز یہ مسئلہ حل طلب ہے۔ اس تنازع کے باعث عالمی توانائی مارکیٹ اور خوراک کی مارکیٹ پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تیل اور گیس پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک روس سے گیس کی فراہمی میں رکاوٹوں کے نتیجے میں گیس کی قلت پیدا ہوئی ہے، بالخصوص یورپ میں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح یوکرین دنیا میں اناج کی فراہمی کا ایک بڑا ملک ہے اور حالیہ بحران کے باعث دنیا میں اناج کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس صورتحال میں ایک بڑے ذمہ دار ملک اور اہم عالمی طاقت کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ اس بحران کے سیاسی تصفیے پر زور دیا ہے اور ابھی حال ہی میں اس حوالے سے اپنا 12 نکاتی پوزیشن پیپر بھی جاری کیا ہے۔ چین نے اس بات پر زور دیا کہ سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کر دینا چاہیے اور تمام متعلقہ فریقین کو دوسروں کی سلامتی کی قیمت پر اپنی سلامتی کے حصول کی مخالفت کرنی چاہیے، گروہی محاذ آرائی کو روکنا چاہیے اور یوریشائی براعظم میں امن و استحکام کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ چین نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ دشمنی ختم کریں اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کریں کیونکہ مشاورت اور مذاکرات ہی یوکرین کے بحران کا واحد قابل عمل حل ہیں۔

چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ تنازعات اور جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ بربریت جس قدر طویل ہو گی، انسانی مصائب اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ چین نے تنازع کے فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ دانش مندی کا مظاہرہ کریں، اپنے جذبات پر قابو رکھیں، اور بحران کو مزید خراب ہونے یا یہاں تک کہ قابو سے باہر ہونے سے روکیں۔ یوں توقع کی جا سکتی ہے کہ چینی صدر کے آئندہ دورہ روس سے یوکرین تنازع کے مذاکرات کے ذریعے حل کی کوششوں کو مزید تقویت ملے گی جو عالمی استحکام میں چین کی ایک بڑی کاوش ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments