سیاسی بحران۔ ملک کے مفاد میں سوچیں


پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ ملک میں کبھی بھی سیاسی پارٹیوں نے صحیح معنوں میں جمہوریت کو مضبوط بنانے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ سیاسی جماعتوں میں ہمیشہ سے شخصی جمہوریت رہی ہے۔ اور طاقت صرف چند ہی سیاسی خاندانوں تک محدود رہی ہے۔ ہمیشہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان اختلاف رائے رہا ہے مگر اختلاف رائے سے کوئی انکار نہیں ہے یہ تو جمہوریت کا حسن ہے مگر ملک کو سیاسی جماعتوں کے اختلاف رائے سے عام آدمی اور ریاست کو نقصان ہی پہنچا ہے۔

گزشتہ موسم بہار میں ملک میں سیاسی عدم استحکام اس وقت پیدا ہوا جب وزیراعظم عمران خان کو 10 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد سے ہٹایا گیا جس کے نتیجے میں 13 پارٹیوں پر مشتمل پی ڈی ایم نے مخلوط حکومت بنائی۔ عمران خان نے مخلوط حکومت اور فوجی قیادت کے خلاف ایک مضبوط تحریک کی قیادت کی ملک بھر میں ریلیاں اور جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی نے اپنی اپنی ریلیوں اور جلسوں میں جو زبان استعمال کی گئی اور کی جا رہی ہے اور جس طرح اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالا گیا شاید اس کی مثال ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

عمران خان ملک میں قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں۔ جولائی اور اکتوبر کے ضمنی انتخابات اور آزاد کشمیر کے لوکل گورنمنٹ الیکشن میں عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایم ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کے حق میں نہیں ہے۔ حکومت کو معاشی صورتحال کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپنی سیاسی ساخت گرتی ہوئی دیکھی رہتی ہے ابھی تک آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل فائنل نہیں کر سکی۔ آخر کب تک پاکستان کو اپنی معاشی ترقی کے لیے آئی ایم ایف پر بھروسا کرنا پڑے گا؟

ملک بھر میں آئینی طور پر اس سال اکتوبر تک انتخابات کا انعقاد لازمی ہے۔ مگر اس سارے معاملے میں الیکشن کمیشن ایک طرف کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے 22 فروری سے شروع ہونے والی جیل بھرو تحریک بری طرح ناکام ہوئی۔ حکومت نے عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے ہوئے ہیں جس میں توشہ خانہ مقدمہ سرفہرست ہے۔ عمران خان تمام مقدمات کو سیاسی انتقام کی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے وہ اعلیٰ عدالتوں میں پیش نہیں ہو ر ہے جو خود قانون کی حکمرانی کا درس دیا کرتے تھے آج وہی اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہونے اور گرفتاری دینے سے ڈر رہا ہے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ جس طرح 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا وہی سلوک عمران خان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت سیاسی انتقام لینے کے لیے پر تول رہی ہے گزشتہ دونوں زمان پارک لاہور میں پولیس اور پی ٹی آئی کے ورکروں کے درمیان جو فسادات ہوئے لوگ اپنے لیڈر کو بچانے کے لیے ریاست اور عدلیہ کے خلاف کھڑے نظر آئے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی شخص ریاست کے قانون سے بالاتر ہے؟ تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی مسائل اور ملک کے مسائل پارلیمنٹ میں حل کریں جس کے لیے عوام ان کو منتخب کرتی ہے مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ کے بجائے یہ تمام مسائل باہر حل کرنے کی کوشش جب بھی کی گئی ہے تو ملک کو اس سے نقصان ہی ہوا ہے اور تیسری قوت نے فائدہ اٹھایا۔

سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ مل کر ملک کے مفاد میں سوچیں، ایک ہو کر چلیں، اختلاف رائے ضرور رکھیں، سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت کو مضبوط کریں، سیاسی کلچر کو فروغ دے، پارلیمنٹ کو مضبوط کرے اور صحیح معنوں میں سیاست کو عبادت سمجھ کر کریں تاکہ ملک ترقی کرے۔ آئینی طریقے سے پانچ سال پورے کر کے جائیں اور ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آئے۔ چھوٹے صوبوں کو اختیار دیں، وفاق کو مضبوط بنائیں، تاکہ پاکستان مضبوط ہو گا اور کوئی تیسری طاقت اکر ان کو اقتدار سے دھکا دے کر باہر نہ نکالے، ماضی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments