کوہستان میں آتشزدگی سے ایک ہی خاندان کے 10 لوگ ہلاک: ’میری والدہ بچوں کو بچانے کے لیے اندر گئیں مگر خود بھی نہ بچ سکیں‘


’جب کمرے میں دھواں پھیلا تو مجھے اس وقت سمجھ میں آیا کہ ہمارے گھر میں تو آگ لگی ہوئی ہے۔ کمرے سے باہر نکلا تو ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔ شور شرابہ کیا۔ دوسرے کمروں میں گیا۔ جس کو نکال سکتا تھا نکالا۔ میں نے دیکھا کہ میری سوتیلی والدہ میرے والد کو سہارا دے کر باہر نکال رہی تھیں۔ پھر میں بے ہوش ہو گیا۔‘

حکام کے مطابق کوہستان کے علاقے پٹن میں ایک مکان میں لگنے والی آگ میں ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

پولیس کے مطابق مرنے والے 10 افراد میں سات خواتین جبکہ تین بچے شامل ہیں۔ اس واقعے میں گلاب خان محفوظ رہے اور وہ اس تمام واقعے کے عینی شاہد بھی ہیں۔

گلاب خان کہتے ہیں کہ میری سوتیلی والدہ زاہدہ بی بی جو اس واقعے میں ہلاک ہوئی ہیں، انتہائی شفیق اور بہادر تھیں۔

’پہلے انھوں نے میرے والد کو محفوظ مقام پر پہنچایا اور پھر بچوں کو بچانے کے لیے دوبارہ کمرے میں گئیں مگر وہ خود بھی نہ بچ سکیں۔‘

’دادی پوتیوں کو بچانے کے لیے آگ میں کود گئیں‘

تحصیل پٹن کے چیئرمین مولانا رحمت علی بتاتے ہیں کہ ہلاک ہونے والے بچوں کی دادی اور گلاب خان کی سوتیلی والدہ نے اس موقع پر انتہائی بہادری کا ثبوت دیا۔

’انھوں نے پھیلتی آگ کے دوران اپنے نوے سالہ خاوند کو کمرے سے باہر لایا۔ ان کے خاوند نہ صرف بوڑھے ہیں بلکہ وہ چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں۔‘

’جب خاوند کو باہر لا کر چھوڑا تو آگ تیزی سے پھیل رہی تھی اور اندر سے بچوں کی چیخیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے خاوند کو باہر چھوڑ کر دوبارہ اندر کی طرف دوڑ لگا دی۔‘

رحمت علی کہتے ہیں کہ لوگوں نے آوازیں دے کر ان کو روکنا چاہا مگر وہ پھر بھی اندر چلی گئیں۔

’اس وقت تک آگ بہت پھیل چکی تھی۔ اس کے بعد خاتون کی چیخوں کی آوزیں سنائی دے رہی تھیں مگر اس پھیلتی ہوئی آگ میں کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔‘

کوہستان میں آتشزدگی

’آنکھ کھلی تو محسوس ہوا کہ میری سانس بند ہو رہی ہے‘

گلاب خان بتاتے ہیں کہ ان کا گھر تین منزلہ ہے، جس میں سب سے نچلی منزل پر باڑہ ہے جہاں پر مال مویشی رکھے ہوئے ہیں جبکہ دوسری اور تیسری منزل پر چھ بھائیوں کے بال بچے گیارہ کمروں میں رہائش پذیر ہیں۔

مجموعی طور پر اس ایک مکان میں 48 افراد رہائش پذیر تھے، جن میں سے دس ہلاک ہو گئے، تین زخمی ہیں جبکہ باقی محفوظ رہے۔ گلاب خان نے بتایا کہ وہ اور ان کے دیگر بھائی دیہاڑی دار مزدور ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ رات ڈیڑھ بجے کا وقت ہو گا، جب ان کی اچانک آنکھ کھلی۔

’مجھے اچانک اس طرح محسوس ہوا کہ میری سانس بند ہو رہی ہے۔ میں ایک دم اٹھ کر بیٹھا تو دیکھا کہ سارے کمرے میں دھواں ہے۔ جس پر میں نے اپنے کمرے میں سوئے ہوئے تمام افراد کو فی الفور باہر نکالا۔‘

گلاب خان کا کہنا تھا کہ میرا کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ میں نے دوسرے کمروں کے دروازے کھٹکھٹائے اور ان کو اٹھایا، سب بھائی جاگ گئے تھے۔ بچوں اور خواتین کو باہر نکال رہے تھے مگر آگ پھیل چکی تھی۔ دھواں اتنا بڑھ گیا تھا کہ سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ان کی سوتیلی والدہ، بھابھی اور کچھ بچے ایک ہی کمرے میں تھے۔

’اس کمرے تک آگ سب سے پہلے پہنچی۔ اس کے بعد اس سے ملحق دوسرے کمرے تک پہنچی اور ان دونوں کمروں میں موجود لوگ ہی ہلاک ہوئے۔‘

گلاب خان کا کہنا تھا کہ پھر انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی ’جس کا مطلب تھا کہ مدد پہنچ چکی ہے مگر دھواں اتنا زیادہ تھا کہ میں بے ہوش ہو گیا۔‘

’آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے‘

ریسکو 1122 کے ایمرجنسی آفیسر ساجد علی کے مطابق انھیں رات دو بجے کے بعد اطلاع ملی کہ پٹن میں گھر میں آگ لگی ہوئی ہے، جس کے بعد وہ فوراً ہی موقع پر پہنچ گئے۔

’وہاں پر دیکھا کہ شعلے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ یہ یقینی طور پر تھرڈ ڈگری آگ تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آگ پر قابو پانا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ یہ کام ایک ٹیم اور ایک فائر بریگیڈ کے بس میں نہیں۔

ساجد علی کا کہنا تھا کہ آگ پر قابو پانے میں مجموعی طورپر 35 ہزار لیڑ پانی استعمال ہوا۔

’تقریباً اڑھائی بجے آپریشن شروع ہوا اور صبح تقریباً آٹھ بجے مکمل ہوا۔ اس دوران فائر بریگیڈ کو دوسری مرتبہ پانی بھروانے کے لیے بھی جانا پڑا۔‘

’آگ لگنے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں‘

ایس ایچ او تھانہ پٹن محمد شفیق کے مطابق واقعہ رات کو پیش آیا تھا لیکن جس مقام پر یہ واقعہ پیش آیا وہ کوئی سنسان علاقہ نہیں بلکہ تھانے کی حدود سے صرف دو منٹ کی پیدل مسافت پر ہے۔

محمد شفیق کہتے ہیں کہ پولیس اہلکار جو گشت پر مامور تھے، انھوں نے دیکھا کہ ایک تین منزلہ عمارت کی نچلی منزل پر آگ لگی ہوئی ہے۔

’وہ فوراً موقع پر گئے تو آگ بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔ انھوں نے مقامی لوگوں کو اٹھانے کے لیے فائرنگ کی جس کے بعد مقامی لوگ نکلے مگر اتنی دیر تک آگ پھیل چکی تھی۔‘

محمد شفیق کہتے ہیں کہ ابتدائی تفتیش کے نتیجے میں ہمارا خیال ہے کہ شاید یہ آگ مال مویشیوں کے باڑے میں نچلی منزل سے پھیلی۔

دوسری جانب پٹن تحصیل کے چیئرمین مولانا رحمت علی کہتے ہیں کہ انھیں بھی ابھی تک آگ لگنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔

’یہ لوگ بجلی کے لیے سولر پینل استعمال کرتے تھے۔ سولر پینل سے تو شارٹ سرکٹ یا آگ لگنا بظاہر ممکن نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے کہا کہ لیکن آگ تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ عمارت کا لکڑی سے تعمیر ہونا سمجھ میں آتا ہے۔

کوہستان میں آتشزدگی

ریسکو 1122 کے ایمرجنسی آفیسر ساجد علی کا بھی کہنا ہے کہ ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ آگ کیسے لگی۔

’موقع پر ہمیں کچھ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی بنا پر آگ لگنے کی وجہ بتائی جا سکے۔‘

گلاب خان کہتے ہیں کہ انھیں نہیں پتا کہ آگ کیوں لگی۔ ’ہماری کسی کے ساتھ کوئی دشمنی اور تنازعہ نہیں۔ مویشیوں کے باڑے سے بھی آگ لگنا ممکن نہیں کیونکہ ہم لوگوں نے وہاں پر کسی چیز کو آگ نہیں لگائی تھی۔ ویسے بھی مویشیوں کو گرم رکھنے کے لیے سردیوں میں آگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب سردی ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے وہاں آگ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چھ بھائیوں اور 48 لوگوں کی رہائش کا واحد ٹھکانہ ختم گیا جبکہ تمام سامان، مال مویشی اور کچھ نقد رقم جو برسوں کی محنت مزدوری کے بعد جمع کی تھی، وہ بھی جل گئی۔

’اب ہم قریبی لوگوں اور رشتہ داروں کے گھروں میں رات گزاریں گے۔ ایک تو ہم اپنے پیاروں سے محروم ہو گئے، دوسرا چھت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments