ماہ صیام کی تیاری


رمضان کا بابرکت مہینہ قریب ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس با برکت مہینے کی رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کے لئے سارا سال اس مہینے کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ چنانچہ ماہ شعبان کے تیسرے عشرے میں دنیا بھر میں مسلمانوں میں اس ماہ مبارک کے استقبال کی تیاریاں اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ ہم پاکستانی چونکہ کچھ زیادہ ہی مسلمان اور اسلام پسند ہیں اس لئے ہمارے یہاں ہر سال کی طرح اس بار بھی رمضان کی تیاری کافی زور و شور سے جاری ہیں۔

رمضان چونکہ روزے کا مہینہ ہے اس لیے اس مہینے میں سب سے زیادہ تیاری بھی اشیاء خورونوش کے حوالے سے کی جاتی ہے۔ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے دوران جن اشیاء خور و نوش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ زیادہ مقدار میں ذخیرہ کر لی جائیں تاکہ روزوں میں ان اشیاء کی قلت پیدا نا ہو۔ چنانچہ رمضان کی سب سے زیادہ ضرورت سمجھی جانے والی شے کھجور جس سے روزہ کھولے بغیر ہمیں لگتا ہی نہیں ہے کہ ہم۔ نے روزہ رکھا بھی ہے یا نہیں مارکیٹ سے تقریباً غائب ہی ہو چکی ہے اور اگر مل بھی رہی ہے تو اس کی قیمت غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔

کراچی میں تو تاجروں نے واضح اعلان کر دیا ہے کہ اس وقت کراچی کی کھجور منڈی میں کھجوروں کی قلت ہے جس کے باعث رمضان میں کھجور کی طلب کو پورا کرنا مشکل ہو گا۔ اب کھجور ایسی چیز ہے جس کی اہمیت روزہ داروں کے لیے امتحانی پرچے میں آنے والے لازمی سوال کی سی ہے۔ مطلب کسی سوال کا جواب دیں یا نا دیں لازمی سوال کا جواب ضرور دینا ہے۔ لہذا روزے داروں کی اسی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تاجروں نے ابھی سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ بھائی مہنگی کھجوریں خریدنے کے لیے ابھی سے پیسے جمع کرلو کیونکہ روزہ کھجور سے ہی کھولنا ہے کسی اور چیز سے کھولا تو سمجھو کھلا ہی نہیں۔

غریب عوام اس چکر میں مہنگی کھجوریں ہی خریدیں گے عوام کی تو وہ حالت ہے کہ مرتا کیا نا کرتا جتنی مہنگی ہو جائے کھجور سے ہی روزہ افطار کرنا ہے ورنہ سنت پوری نہیں ہو گی اور سنت پوری نا کی تو فرض روزہ بھی مکمل نا ہو گا۔ اسی طرح رمضان کے پرچے کا ایک اور اہم سوال کیلا بھی مارکیٹ سے فرار ہونا شروع ہو چکا ہے۔ جو دستیاب ہے وہ خراب بھی ہے اور مہنگا بھی۔ کیلے کے فرار کے متعلق یہ اطلاعات ہیں کہ موصوف کی فصل خراب ہو چکی ہے۔

جس کے باعث کیلا مارکیٹ میں ناپید ہو رہا ہے اور رمضان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کیلا دستیاب نہیں ہو گا۔ یہ واضح پیغام ہے کہ اگر افطاری میں فروٹ چاٹ کھانی ہے تو مہنگا کیلا خریدنا پڑے گا۔ اب فروٹ چاٹ میں کیلا نا ہو تو نا چاٹ کا مزہ نا افطاری کا چنانچہ اس مزے کی کتنی ہی قیمت کیوں نا دینی پڑے کیلا تو خریدنا ہی پڑے گا۔

بازار سے راہ فرار اختیار کرنے والوں میں کیلا اکیلا نہیں ہے۔ کیلے کو فرار ہوتے دیکھ کر آٹے نے بھی اس کے پیچھے بھاگنے کے لیے کمر کس لی۔ ہے۔ آٹے کی قیمت بھی گزشتہ چند ماہ سے غریب اور متوسط افراد کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ مہنگا سستا اچھا ناقص جیسا بھی سہی آٹا مل تو رہا تھا اب اطلاعات یہ ہیں کہ سندھ میں گندم فلور ملز کو نہیں دی جاری جس کے باعث آٹے کی قلت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ اب لوگ جو روکھی سوکھی روٹیاں کھا رہے وہ بھی کھانا چھوڑ دیں۔ حکمران عوام کو روٹی مہیا نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ ہی بتا دیں کہ ہوا کے ساتھ چٹنی کیسے کھائی جاتی ہے۔ کیونکہ ہمارے حکمران اس کام میں ماہر ہیں۔ ملکی خزانے سے لے کر توشہ خانے تک سب کچھ کھا جاتے ہیں اور کسی کو نظر بھی نہیں آتا۔

آٹے کے ساتھ ہی جس نے بھاگنے کے لئے چستی دکھائی ہے وہ ہیں اس قوم کی محبوب ترین ہستی۔ نام ہے ان کا چائے کی پتی۔ چائے کے معاملے میں پاکستانیوں کی اکثریت کی یہ حالت ہے کہ انہیں سارا دن کھانے کو بھلے سے کچھ بھی نا دو بس ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد گرما گرم کڑک چائے کا ایک کپ پلا دو۔ ان کی زندگی اسی سے سنور جاتی ہے۔ ان لوگوں کے لئے چائے وہی کام کرتی ہے جو گاڑی کے لیے ایندھن کرتا ہے۔ ایندھن نا ڈلے تو گاڑی بند ان لوگوں کو چائے نا ملے تو ان کے دل و دماغ سب شنٹ۔

اسی لیے جسم کی گاڑی کو رواں رکھنے کے لیے چائے بہت ضروری ہے چنانچہ روزے داروں کی اکثریت اپنی سحری اور افطاری چائے پے ختم کرتے ہیں لہذا چائے کی اس مانگ کے پیش نظر چائے کی پتی کی بھی قلت کا رونا شروع ہو چکا ہے۔ ہم سالانہ اربوں روپے کی چائے کی پتی باہر سے منگواتے ہیں اور اس وقت ملک میں باہر سے کچھ منگوانے کے پیسے نہیں ہیں اور ملکی ذخیرہ اتنا نہیں ہے کہ جو رمضان میں چائے کی پتی کی طلب کو پورا کر سکے اس وجہ سے طلب اور رسد کے فرق کو کم کرنے کے لیے چائے کی پتی مہنگی کرنی پڑے گی جو کہ گزشتہ عرصے میں بڑھتے بڑھتے اٹھارہ سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔

اب اٹھارہ سو روپے کی ہو یا اٹھائیس سو روپے کی پتی تو خریدنی ہے۔ ورنہ جسم میں ایندھن کیسے ڈلے گا۔ اور جب ایندھن نہیں ڈلے گا تو کام کیسے چلے گا۔ جب ہم اپنی سواری کے لیے مہنگے سے مہنگا ایندھن خرید سکتے ہیں تو اپنے جسم کے لیے کیوں نہیں خرید سکتے۔ تو حضرات ہماری ان ہی ضروریات اور مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں اور تاجروں نے اپنے پورے انتظامات اور اقدامات کیے ہیں تاکہ ہم عوام رمضان المبارک کی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہو سکیں۔

آپ ان چیزوں کی قلت کا سوچ کر خود کو پریشانی میں مبتلا نا کریں۔ اللہ کی ذات سے پوری امید رکھیں۔ جن اشیاء کے بحران اور قلت کا ابھی ڈراوا دیا جا رہا اللہ نے چاہا تو رمضان کا چاند نظر آتے ہی یہ تمام اشیاء آسمان سے برسیں گی۔ ہر چیز وافر مقدار میں دستیاب ہو سکے گی اور آپ باآسانی خرید کر اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کر سکیں گے۔ بس شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس غیب سے ایسے ہی بہت سارے پیسے آ جائیں جیسے مارکیٹ میں سب چیزیں آئیں گی۔

آپ ان پیسوں سے دل کھول کر خریداری کیجے گا تاکہ تاجر حضرات بھی شب قدر حرم شریف میں گزار سکیں اور آپ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھ سکیں جن کے تعاون کی بدولت انہیں ہر سال یہ سعادت نصیب ہوتی ہے۔ رمضان تو ہے ہی برکتیں اور سعادتیں باٹنے اور سمیٹنے کا مہینہ۔ آپ سب کو رمضان کی مبارک۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جیسی بھی سہی عبادات کو قبول کریے اور ہم پر اتنا رحم کر دے کہ حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کے بعد جو روکھی سوکھی اس قوم کو مل رہی ہے وہ ملتی رہے بے شک نا ہم اور نا ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ اللہ کے رحم کے طلب گار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments