سلام پاکستان


مڑ کی ہویا جے چھوراں ڈھنگری سٹ ای لیٰ؟ یہ رچناوی پنجابی زبان کا ایک فقرہ ہے جس کا اردو ترجمہ ہے ’پھر کیا ہوا اگر لڑکوں نے لکڑی پھینک ہی لی؟‘ یہ اس جملے کا لفظی ترجمہ ہے۔ ڈھنگری اس لکڑی کو کہتے ہیں جو عموماً ایندھن کے طور پر چولہوں میں جلانے کے کام آتی ہے۔ لیکن کہنے والے نے کمال مہارت سے اس لکڑی کو ڈھنگری کے معانی پہنا دیے جو رات کے وقت آتی جاتی کار یا موٹر سائیکل وغیرہ کو روکنے کے لیے راہزن سڑک پہ پھینکتے ہیں اور ان کے رک جانے پہ اسے تسلی سے لوٹ لیتے ہیں۔ اس لکڑی کا استعمال بالکل ایسا ہی ہی جیسے مچھیرا مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر یا دریا میں جال کا کرتا ہے۔

ایک دفعہ کچھ پیشہ ور راہزن لڑکوں نے دور سے آتی جس گاڑی کے آگے ڈھنگری سٹی یا لکڑی پھینکی، اتفاق سے وہ گاڑی پولیس کی تھی جسے وہ پہچان نہ سکے تھے اور نتیجتاً گرفتار ہوکے تھانے جا پہنچے۔ اگلی ہی صبح ان کو چھڑوانے کے لیے اس حلقے کا ایم این اے بھی تھانے میں آ موجود ہوا۔

جب تھانیدار ان کو چھوڑنے میں ذرا لیت و لعل سے کام لے رہا تھا تو اس وقت ایم این اے صاحب نے اپنا یہ تخلیقی جملہ تھانیدار پہ داغا تھا ’مڑ کی ہویا جے چھوراں ڈھنگری سٹ ای لیٰ‘ ۔ یعنی پھر کیا ہوا اگر بچوں نے لکڑی پھینک ہی لی؟ موصوف نے اچھے خاصے شہتیر کو ’ڈھنگری‘ قرار دے دیا۔ جس کے استعمال سے وہ لوٹ مار کرتے رہے تھے اور اسی سلسلے میں وہ پولیس کو مطلوب بھی تھے۔ لیکن اس ایم این اے صاحب کی نظر میں راہزنی کی نیت سے ان لڑکوں کا گاڑیاں روکنا گویا کویٰ جرم ہی نا ہو۔ وہ تو بس یونہی ڈ، ہنگری ڈھنگری کھیل رہے ہوں۔ قصہ مختصر چھوٹی موٹی کاروائی کے بعد وہ لڑکے رہا ہو گئے، جنہوں نے نا جانے بعد میں کتنی مزید ڈھنگریاں پھینکی ہوں گی اور اس سے پہلے کتنی پھینک چکے ہوں گے۔

اس ایم این اے سے منسوب بے شمار باتیں حلقہ بھر کے سرکاری دفاتر میں ضرب المثل اور اقوال زریں کی سی حیثیت رکھتی تھیں اور سرکاری اہلکاروں بالخصوص تھانیداروں اور پٹواریوں نے اپنے طریقہٰ کار کو ایم این اے صاحب کے مزاج کے مطابق ڈھال رکھا تھا۔ اور ان کے عوامی نمائندہ ہونے سے حلقہ بھر کے ڈھنگری بردار مستفید ہو رہے تھے۔

اس ایم این اے کے پیش رو کے بارے میں بھی اس طرح کے کئی قصے مشہور ہیں۔ اس نے تو اپنی ممبری کے کچھ حقوق و فرائض اپنے بھائی کو تفویض کر رکھے تھے، جس نے ایک بار کسی سایل کی خواہش کے مطابق اس کی دادرسی نہ کر سکنے پر ضلع کے ڈی سی کے تھپڑ رسید کر دیا تھا۔ جس سے ان کی ’عوام دوستی‘ کی دھاک ضلع بھر کے سرکاری دفاتر میں بیٹھ گیٰ تھی۔

بات ڈھنگری کی ہو رہی تھی جس کے پھینکنے والے عام سے رایزن ہوتے تھے اور ممبران پارلیمان ان کے سفارشی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے سفارشیوں نے ڈھنگری کے کمالات سے متاثر ہو کر خود اس کا استعمال شروع کر دیا۔ فرق اتنا ہے کہ وہ سڑکوں پہ پھینکتے تھے اور یہ تحریک اعتماد یا عدم اعتماد کے موسم میں اقتدار کے ایوانوں میں پھینکتے ہیں اور کامیاب دیہاڑیاں لگاتے ہیں۔

یہ ڈھنگری ہمیشہ سے قانون، آئین اور جمہوریت کی راہوں پر پڑی نظر آتی رہی ہے اور ان راہوں پہ چلنے والے مسلسل لٹتے آ رہے ہیں نا صرف رات کے اندھیرے میں بلکہ دن کے اجالے میں بھی۔ وہ اپنے آپ کو لٹتا دیکھ رہے ہیں، لیکن بے بسی کا یہ عالم ہے، کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ سفارش بھی صرف لوٹنے والوں کو ہی میسر رہی ہے جو ایک واردات سے فارغ ہو کر اگلی کے لیے تیار رہتے ہیں۔

لٹنے والوں کو تو مایوس ہونے کا بھی حق نہیں، انہیں جہنم سے یہ کہہ کر ڈرا دیا جاتا ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔ اگر وہ احتجاج کریں تو ان پہ آنسو گیس کے گولے اس طرح برسائے جاتے ہیں جیسے جنگ کے محاذ پر دشمن کی فوج پہ برسائے جاتے ہوں۔ کویٰ صحافی اس ڈھنگری کے استعمال پر روشنی ڈالے تو اسے بھگا بھگا کر ملک سے باہر لے جا کر مارا جاتا ہے، اگر کوئی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ذکر کرتا ہے اسے اٹھالیا جاتا ہے اور اس کے گھر والوں ہی کے سامنے اسے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا جاتا۔ کویٰ لیڈر اس کا ذکر کرے تو اس کے سر پر غداری اور بدعنوانی کی تلوار لٹکا کر اپنا ہمنوا بنا لیا جاتا ہے۔ یہ کیسی ڈھنگری ہے جسے ابھی تک چولہے میں نہیں ڈالا گیا؟ چولہے میں ڈال کر بھی کیا کرنا ہے، اس کے اوپر بھی تو کچھ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments