اخلاص کے بغیر بندگی


ہمارے معاشرے میں حقوق اللہ پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن حقوق العباد کی نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ کوئی اس کی ذکر کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ نہ ہمارے علماء اکرام اس مضمون پر بات کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو اس کی اہمیت کا پتہ ہوتا ہے۔

اگر ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو ہر ایک فرد نماز پابندی سے پڑھتا ہے اور روزہ باقاعدگی سے رکھتا ہے، لیکن اللہ کے بندوں کی حقوق کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتا ہے اور ہمیشہ حق تلفی کرتا ہے۔ ان لوگوں کو شاید حقوق العباد کا پتہ نہیں یا جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں صاف ہی کہہ دیا ہے کہ میں اپنے حقوق میں کمی و بیش معاف کروں گا اگر میں چاہا تو۔ میں اپنے بندوں کی حق تلفی اس وقت تک معاف نہیں کروں گا جب تک میرا بندہ خود معاف نہ کرے۔

ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ لوگ حقوق اللہ پر باقاعدگی سے عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتے ہیں، اور اس سے بڑھ جب کوئی حقوق اللہ کسی وجہ سے پورا نہیں کرتا ہے اور اللہ کا کمزور بندہ ہونے کی وجہ سے حقوق اللہ پورا نہیں کرتا ہے تو اس کو سیکولر اور جہنمی ٹھہراتے ہیں۔ اس کو ماڈرن اور مذہب سے بیزار کہتے ہیں اور طرح طرح کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے بظاہر یہ لوگ حقوق اللہ تو پورا کرتے ہیں لیکن حقوق العباد کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں جہاں حقوق اللہ کا ذکر آیا ہے وہاں حقوق العباد کا بھی ذکر ہے۔ اگر یہ لوگ سچ میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہوتے اور اللہ سے ڈرنے والے ہوتے تو یہ کبھی بھی حقوق العباد کی ادائیگی میں کمی نہ کرتے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی اللہ دیتا ہے، اور اللہ اپنے بندوں کی حق تلفی کو کبھی معاف نہیں کرتا ہے اور حق تلفی کی سزا ضرور دیتا ہے۔

اللہ کا سچا بندہ اور اللہ سے ڈرنے والا کبھی بھی حقوق العباد کی ادائیگی میں کمی نہیں کرے گا اور اللہ کے بندوں کی حقوق پورا پورا ادا کرے گا۔ وہ حقوق العباد کی ادائیگی میں اپنا مفاد نہیں دیکھے گا اور اللہ کا حکم سمجھ کر پورا کرے گا۔ لیکن یہاں ہمارے معاشرے میں کچھ الٹ ہی ہوتا ہے حقوق اللہ تو ادا کرتے ہیں لیکن اللہ کے بندوں کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کے حقوق حلب کرتے ہیں۔ اور طرح طرح کی تکلیف پہنچاتے ہیں۔

کچھ عالم ( عالم تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ ان کے پاس نہ دین کا علم ہوتا ہے اور نہ دنیا کا۔ ان کے پاس صرف مدرسے کی ڈگری ہوتی ہے کچھ کے پاس وہ بھی نہیں ہوتی ہے ) ایک مذہبی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے لیڈر پر تنقید کرتا ہے  تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اخلاق نام کا کوئی چیز بھی ہے کہ نہیں، وہ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ اس جماعت کو کیوں سپورٹ کرتے ہو، تو کہتے ہیں اللہ کے لیے کرتے ہیں لیکن اللہ کے حکم بھول جاتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کے لیے کرتے تو وہ ضرور تنقید برداشت کرتے۔ ایسا کچھ نہیں وہ صرف اپنے مفاد دیکھتے ہیں

اللہ کا حکم نہ مان کر یہ کیسے اللہ کی بندگی ہے، میرے خیال میں وہ اللہ کی بندگی کرتے ہی نہیں اور وہ صرف دکھاوے کے لئے حقوق اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اللہ کے ہاں صرف وہی عبادت قبول ہوتی ہے جس میں اخلاص ہو۔ اور جس کام کو کرنے میں اخلاص نیت نہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو کام بھی کیا جائے اس میں اخلاص ہونا ضروری ہے۔ اللہ ہمیں اخلاص نیت سے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments