لیڈر کا رومانی تصور اور حقیقی دنیا


اگر ہمیں جمہوری اور مطلق العنان ریاست میں سے کسی ایک میں رہنے کا اختیار ملے تو ہماری ترجیح یقیناً جمہوری ریاست ہی ہوگی مگر جب ہمیں اپنے لیے لیڈرشپ کے چننے کا اختیار حاصل ہو جائے تو ہماری حتی المکان کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا لیڈر ایک مضبوط ارادے والا خودمختار شخص ہو جو آسانی سے کسی کے سامنے نہ جھکے۔ ایسا کیوں ہے؟ اکیسویں صدی کی گلوبل سوسائٹی میں کیا واقعی ایک عظیم لیڈر کی یہی حقیقی تعریف ہے؟ یا ہم کسی رومانوی مغالطے کا شکار ہیں؟ کیا دنیا میں ایک اچھے اور مضبوط لیڈر کی درست تعریف یا کامیابی کی ضمانت کچھ اور ہے؟ کیا اس فریب کی وجہ سے ہم اپنی ریاست کو ٹوٹلیٹیرینزم ( مطلق العنانیت) کے سپرد کرنے کا خطرہ تو نہیں لے رہے ہیں؟

آرچی براون کی کتاب ”دی متھ آف دی اسٹرانگ لیڈر“ پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ مغربی ذہن لیڈ ر کے انتخاب میں محتاط کیوں ہے یا وہاں کا دانشور اپنی عوام کو خبردار کیوں کر رہا ہے؟

یہ ایک بہت ہی اہم موضوع ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے اسے بھی بھیڑ چال کی فکر ( ہرڈ سائیکولوجی) کے سپرد کر دیا ہے جس کے بعد تاریخ کی طرف سے ملنے والی سزاؤں پر سے ہمارے اعتراض کا حق یقیناً ختم ہوجاتا ہے۔

اپنی کتاب میں آرچی براون لکھتا ہے کہ حقیقی دنیا میں قوموں کے لیے کارآمد لیڈر کی صفات، اس کے خود مختار یا خود سر لیڈر ہونے کی متھ سے قطعی مختلف ہیں۔ ایک لیڈر کی فراست کا عوامی رومانی تصور سے یکسر مختلف ہونا نہایت ضروری ہے۔

عموماً ایک لیڈر کے بارے میں عوامی رائے اس کی تقاریر، بیان بازی، میڈیا رپورٹنگ اور اس کی اپنی لابنگ کے ذریعے سے ہی بنتی ہے۔ میڈیا، اپنی ’ضروریات‘ کی وجہ سے لیڈر کی تصویر کشی اور شخصیت سازی خود اس کی اپنی سیاسی جماعت کی مجموعی طاقت کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ کرتا ہے اسی لیے عوامی رائے عمومی طور پر مجموعی جمہوری عمل کی طاقت سے نابلد رہ کر لیڈر کی طاقتور شخصیت کے تابع ہوجاتی ہے اور اسے کوئی نجات دہندہ سمجھتی رہتی ہے۔ عوام کی اس کمزوری کی وجہ سے لیڈر اپنی ہائپ پر زیادہ یقین رکھتا ہے اور عوام میں خود کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کی تگ دو کرتا رہتا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اپنی آٹو بائیوگرافی میں لکھا ہے کہ انہوں نے تین الیکشن خود اپنی پرسنیلٹی کے کرزما سے جیتے، انہوں نے اپنی کامیابی کو لیبر پارٹی سے منسوب کرنے کے بجائے اپنی شخصیت کے جادو سے منسوب کیا اور لوگوں میں خود کا ایک سیاسی مسیحا ہونے کا تاثر دیا۔ ان کی مضبوط اور کمزور لیڈر کی مستقل بیان بازی بالآخر انہیں الیکشن کے زمانے میں ’سروائیول آف دی فٹسٹ‘ کی تکنیک سے جتانے میں مدد کرتی تھی۔

آرچی براون کے مطابق لیڈر کے لیے اس قسم کی صفات خود ان کے لیے کس قدر کارآمد ہوتی ہیں اس کی مثال ٹونی بلیئر اور مارگریٹ تھیچر کے درمیان فرق سے واضح ہوجاتا ہے۔ جب ٹونی بلیئر اور ان کے چانسلر گورڈن براون کے درمیان رخنہ پیدا ہوا تو گورڈن براون نے ان کے ہر حکم کی تابع داری سے انکار کر دیا اور نتیجے کے طور پر ٹونی بلیئر کو براون کی صلاحیتوں سے ہاتھ دھونے پڑے جس کا انہیں نقصان ہوا، براون لیبر پارٹی کے لیڈر بنتے چلے گئے اور ٹونی بلئیر کو بالآخر استعفی دینا پڑ گیا جبکہ دوسری طرف مارگریٹ تھیچر اجتماعی تعاون اور ذمہ داریوں کے اشتراکی تصور اور عمل پیرا ہونے پر یقین رکھتی تھی۔ وہ نہ صرف خود ریسرچ پر یقین رکھتی تھی بلکہ نالج ایبل ماتحتوں کی ٹیم کی ایکسپرٹ رائے سے بھی پورا پورا فائدہ اٹھاتی تھی۔

ایک لیڈر کا سب سے زیادہ نقصان اس کے اردگرد جمع ’یس سر‘ کی فوج کرتی ہے جو لیڈر کو خوش رکھنے کے خاطر عوامی جینوئن رائے سے اسے اکثر گمراہ رکھتی ہے اور یوں ایسے لیڈر کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ جو کچھ ہمارے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے ساتھ ہوا اور پھر قوم کے لیے جو مسائل ان کی مطلق العنانیت کی وجہ سے پیدا ہوئے، اس کے نتائج میں ہی ضیا الحق صاحب قوم کو سزا کی صورت میں نصیب ہوئے تھے۔

برطانیہ اور امریکہ کے حوالے سے چند اور مثالیں اس ضمن میں ہمیں ملتی ہیں مثلاً کلیمنٹ ایٹلی نے اپنے دور حکومت (1945۔ 1951) کے دوران ایورین بیوائئن صاحب کی ایکسپرٹائیز کی مدد سے نیشنل ہیلتھ سروسز کو ایک مثالی انداز میں قائم و دائم کیا تھا۔

اسی طرح امریکی صدر لینڈن جانسن کے دور میں ویتنام جنگ کے مسائل کے باوجود امریکن تاریخ کا لاجواب ہیلتھ سسٹم قائم ہوا جو سراسر ان کی اجتماعی ذمہ داریوں کا ماتحتوں کے ایکسپرٹ سسٹم کے ذریعے سے ہی کروانے کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔

بہرحال اس کتاب کا اہم پیغام یہی ہے کہ:

”یہ سوچ کر دھوکہ نہ کھائیں کہ بہترین سیاسی رہنما وہ ہوتے ہیں جو ’مضبوط‘ ہوتے ہیں۔ جمہوری نظاموں میں، سب سے زیادہ موثر رہنما وہ ہوتے ہیں جن میں انکسار ہوتا ہے، جو اپنے ارد گرد کے ماہرین کی بات سن سکتے ہیں اور جو مخالف نظریات کے حامل گروہوں کو متحد کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دھونس، زبردستی اور دباؤ والے معاشروں میں خاص طور پر“ مضبوط شخصیت ”مطلق العنانیت کا سبب بن سکتا ہے جن سے پیدا ہونے والے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی یاددہانی کے لیے اٹلی کے مسولینی، سویت یونین کے جوزف اسٹالن، نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر، چین کے ماؤزے ڈانگ اور نارتھ کوریا کی کم ڈائنسٹی کو نہیں بھولنا چاہیے“

 

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments