افسانہ: ڈھال


‏اس نے کالج میں داخلہ کی بات کی تو محلہ کے سب لوگ واعظ بن گئے۔ پہلے پہل تو بیٹا، بیٹی، لاڈو کہہ کر سمجھایا مگر کچھ ہی روز گزرے کہ گنوار، منہ پھٹ، بد تہذیب، بدتمیز کہنے لگے مگر اس کے لئے تعلیم پر سمجھوتا، ناممکن تھا۔

نوجوان تھی اور ذرا جذباتی بھی، کسی کی ایک نہ سنی، والدین نے آخر اس کے عزائم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور یوں پہلی بار اس کے خواب مسکرائے تھے۔

چند ہی روز میں اس کی چال ڈھال بدلنے لگی۔ میک اپ، اور کپڑے دن بدن پر کشش ہوتے جا رہے تھے۔ اس نے اپنی ہی دنیا بنا لی تھی۔ جینے کے لئے مذہب، حاصل کے لئے خدا، اڑنے کے لئے اپنا آسماں۔ جن آنکھوں کے ہلکے دن بدن گہرے ہوتے جا رہے تھے، اب ان کی چمک دمک دیدنی تھی۔ اس نے کسی بھی مصروفیت کو کبھی اپنے خوابوں پر حاوی نہ ہونے دیا یہی وجہ تھی کہ سال اول میں نمایاں نمبروں سے کامیاب ہوئی۔ مگر ایک روز کالج جاتے ہوئے دو نقاب پوش اجنبیوں نے اسے اغواء کر لیا۔

رات گئے وہ گھر لوٹی تو گھر والوں کے کئی واہمے یقین میں بدل چکے تھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں بنیں۔ اس کی والدہ نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے نہایت معمولی انداز میں ایک سہیلی کے ہاں قیام کی کہانی گھڑ دی۔ اس کے ماتھے پر کوئی شکن تھا نہ ہاتھوں میں لرزش، مگر اس کے ذہن میں ایک پختہ ارادہ ضرور تھا۔ چونکہ وہ معمول کے مطابق اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئی اس لئے گھر والوں پر شکوک و شبہات کے دروازے تقریباً بند ہو گئے۔

آدھی رات کو جونہی اسے تنہائی میسر ہوئی اس کے ذہن میں اس کی بے بسی اور لاچارگی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اب وہ سامنے رکھے ٹیبل پر زور زور سے اپنا سر پٹخ رہی تھی، اس نے اپنے بدن پر نظر دوڑائی اور زار و قطار رونے لگی، وہ اندر سے مکمل طور پر مر چکی تھی، زندہ تھی تو کچھ پل مزید اپنا سر زخمی کرنے اور آہ و بکا کے لئے۔

اسکے کپڑوں سے ایک عجیب قسم کی عطر میں گندھی گھناؤنی بو آ رہی تھی جس سے اس کا سانس گھٹنے لگا تھا۔ رات کے تقریباً تین بجے اس نے چھت والے پنکھے سے اپنا دوپٹہ باندھا اور ایک چھوٹی میز پر کھڑی ہو گئی اب وہ اس دوپٹہ کی گرہ کو مضبوط کر رہی تھی۔ اچانک اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہونے لگی۔

”بیٹا، پنکھے پہ بندھا دوپٹہ اتارو اور سو جاؤ کب تک تمہارے دروازے کے ساتھ دیوار بنا کھڑا رہوں گا“ ۔ اس کے والد نے، جو بیٹی کی آنکھیں پڑھ سکتا تھا اور پچھلے ایک گھنٹے سے دروازے کے سوراخ اپنی بیٹی کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا، کہا ”بیٹا اگر تم نے ہار مان لی تو میں ایک پل کے لئے بھی زندہ نہ رہوں گا“ باپ کے آنسو بیٹی کی ڈھال بن گئے تھے۔

اگلی ہی صبح وہ معمول کے مطابق میک اپ کر کے نئے کپڑے پہنے کالج، اور اس کا والد مشورہ کے لئے اپنے ایک دوست سے ملنے عدالت کی جانب روانہ ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments