یہ جو لاہور سے محبت ہے یہ دراصل لاہور سے ہی محبت ہے


سلمان مسعود نے البانیہ سے اطلاع دی کہ جب وہ واپس وطن پہنچیں گے تو اس کے لمز یونیورسٹی کے موٹ مقابلہ میں بحریہ یونیورسٹی کی ایک ٹیم جائے گی۔ راقم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر ممکن ہوتو مجھے اس ٹیم کے کوچ کے طور پر ساتھ لے چلیں۔ راقم جب ایل ایل بی کر رہا تھا اس وقت اس طرح کے مواقع میسر نہ تھے تو اس احساس کی تکمیل کے راقم کی دلی خواہش تھی کہ کسی موٹ ٹیم کے ہمراہ جایا جائے۔ (موٹ سے مراد ایک فرضی مقدمہ ہوتا ہے جس میں قانون کی ڈگری کے طلبا و طالبات کبھی درخواست گزار تو کبھی مسؤل علیہ کی طرف سے قانون دلائل دیتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی فرضی مشق ہوتی ہے جس کا اصل مقصد طالب علموں کو ان کی عملی زندگی کے لئے تیار کرنا ہوتا ہے۔ )

17 مارچ بروز جمعہ جانے کا پلان ہوا۔ ٹیم راقم کے ہمراہ 12:40 بجے دن بس میں سوار ہوئی، ٹیم مذکورہ سلمان مسعود، ملائکہ حسن اور سعد سلیم پر مشتعل تھی۔ ہم رات 7 بجے لمز پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی پہلا دھچکا یہ لگا کہ راقم کے دل میں لمز یونیورسٹی کی طرف سے منعقدہ مقابلے کا جو ایک نقشہ بنا ہوا تھا وہ لمز کی لا سوسائٹی کے رجسٹریشن ڈیسک کی حالت دیکھ کر ہی چکنا چور ہو گیا۔ ہوٹل دیکھ کر اس سونے پر سہاگہ ہو گیا۔ ہمارے ساتھ بھیجے گئے سوسائٹی کا نمائندہ بالکل مہمان نواز نہ تھا۔ اس کے بات کرنے کا انداز ایسا تھا گویا ہم اس پر بوجھ تھے۔ لمز سوسائٹی کے موٹ کے انتظامات دیکھ کر انتہائی حد کی مایوسی ہوئی۔ نہ لا سکول میں ہمارے خوش آمدید کا کوئی انتطام تھا نہ ہی ہوٹل میں کوئی مناسب انتظام تھا۔

اگلی صبح مقابلے کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا۔ یونیورسٹی کا کوسٹر ٹیموں کے لینے آئی تو سوسائٹی کے نمائندہ موصوف نے تمام کمروں میں رہائش پذیر لوگوں کو باقاعدہ ہانکتے ہوئے کوسٹر کی طرف لے گئے۔ اکثر موٹ میں دیکھا ہے کہ ہر ٹیم کو ایک نمائندہ الاٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ ٹیموں کی مناسب رہنمائی کی جا سکے مگر لمز میں حالات سے یکسر مختلف تھے ہر ٹیم کے لئے تو درکنار یونیورسٹی میں سوسائٹی کا کوئی ایک بھی نمائندہ موجود نہ تھا جو ٹیموں کی رہنمائی کرے۔ ٹیمیں جو پاکستان کے طول و عرض سے آئی ہوئی تھی انہوں نے اپنی مدد آپ کے بزنس سکول کا رخ کیا تاکہ وہاں جا کر مقابلوں میں حصہ لیا جائے۔ سوسائٹی کی طرف سے کیے گئے انتظامات ناصرف غیر تسلی بخش بلکہ تھے ہی نہیں۔ اس طرح ٹیموں کو بلا کر نہ صرف بے آبرو کیا گیا بلکہ اپنے آپ کو بھی ایکسپوز کیا گیا۔

ان تمام اعتراضات اور مایوسیوں کے باوجود یہ سفر بہت یادگار تھا۔ اور یہ کہ یہ لاہور کا سفر پہلا اس نوعیت کا سفر تھا دوسرا اس سفر میں ہمسفر بہت با کمال تھے۔ بحریہ یونیورسٹی کی سابقہ کولیگ حریم ہلال اور موجودہ کولیگ قرۃ العین رحمان بھی اپنی اپنی ٹیم کے ساتھ لمز میں آئی ہوئی تھی۔

اتوار کے روز ہم دن 12 بجے ہوٹل سے نکلے۔ پلان تھا کہ ہم لاہور کی فوڈ سٹریٹ سے لنچ کر کے واپس نکل جائیں گے۔ راقم، قرۃ العین، حریم اور قرۃ العین کی ٹیم یعنی مناہل طاہر، سندس اور جواد چٹھہ کے ہمراہ نکل پڑے۔ منایل طاہر اور جواد چٹھہ لاجواب انسان ہیں نوجوان دوست جب پریکٹیکلی شعبہ وکالت میں قدم رکھیں گے تو راقم انہیں بہت کامیاب وکیل دکھائی دیتے ہیں۔

فوڈ سٹریٹ پہنچ کر وہاں حویلی نامی ایک ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا گیا۔ حویلی کے دروازے پر حویلی خلیل خان لکھا تھا۔ جس سے یہ مفروضہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ حویلی خیل خان نامی کسی صاحب کی ہو گی جسے اب ایک ریسٹورنٹ میں قائم کر لیا گیا مگر جس طرح حویلی کو بزنس مقاصد کے لئے اس کی بہترین بحالی کی گئی کہ حویلی جو ایک ثقافتی ورثہ ہے اس کے ساتھ جدت کا حسین امتزاج کیا گیا ہے اور بہترین ذریعہ معاش بنایا گیا ہے قابل تعریف ہے۔

یہاں کھل کر تصویریں بنائیں۔ ایک صاحب جو کھانے کے لئے آئے خواتین و حضرات کی تفریح کے لئے گانے گنگنا رہا تھا نے ”گلابی آنکھیں جو تیری دیکھیں“ جیسے مقبول گانے کو راقم کے نام کرتے ہوئے اس میں تغیر کر کے ”گلابی آنکھیں جو افراسیاب کی دیکھیں“ گایا۔ اگرچہ راقم کا نام پکارنے میں صاحب موصوف کو کافی دشواری پیش آ رہی تھی پھر بھی انہوں نے کافی کوشش کی اور راقم کا نام اس مصرعہ میں بار بار دہرایا۔

کھانا کھانے کے بعد ہم نے یادگار کا رخ کیا کیونکہ حویلی سے شاہی مسجد کا نظارہ دیکھ کر دل للچایا کہ میں اس حسین مسجد میں خدا تعالی کا شکرانہ ادا کروں۔ فوڈ سٹریٹ کے سامنے دروازہ سے شاہی مسجد کی طرف داخل ہوا تو کیا نظارہ تھا۔ دائیں ہاتھ پر شاہی قلعہ کا مرکزی دروازہ دیکھا، سامنے مقبرہ جہانگیر، بائیں ہاتھ علامہ اقبال کا مقبرہ اور ساتھ ہی بادشاہی مسجد کا مرکزی دروازہ۔ موسم، ہلکے ہلکے بادل، کبوتروں کے چہچہاہٹ، دل موہ لینے والا نظارہ۔

یہ نظارہ دیکھتے ہی میں فلیش بیک میں چلا گیا مجھے لگا کہ گویا میں اب مغل دور میں ہوں اور بر موقع ”نماز عصر کا وقت ہے۔ بادشاہ سلامت اپنے درباریوں کے ساتھ بادشاہی قلعہ کے مرکزی دروازہ سے بادشاہی مسجد کی طرف آ رہے ہیں۔ ہلکے ہلکے بادل ہیں خوشگوار موسم ہے۔ بادشاہی مسجد کے گنبد پر کبوتر منڈلا رہے ہیں۔ کیا جلال کا عالم ہے۔ کیا روحانیت ہے۔ کمال ہے۔“

مسجد میں طلائی نسخہ قرآن کی زیارت کا موقع ملا۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ مسجد سے فارغ ہوئے تو شاعر مشرق کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ اور واپسی کے لئے نکلے۔ اس دوران شاہی قلعہ کی بیرونی دیوار جو سڑک سے نظر آ رہی تھی۔ تو میرے لا شعور پر یہ سوچ نمودار ہوئی کہ یہ تاریخی عمارت یہ اس سلوک کی مستحق نہیں۔ یہاں میں نے سوچا کاش خلیل خان کی حویلی کی طرح اس عمارت کو بھی کسی ٹھیکیدار کو دے دی جائے اسے کہا جائے کہ ایک ہوٹل اور ایک ریسٹورنٹ قلعہ کی اندر قائم کر لو اس ثقافتی ورثہ پر جدت کا تڑکا لگاؤ اپنی کمائی کرو مگر اس ورثہ کی حفاظت کرو۔ اگرچہ اس مقصد کے لئے اندرون لاہور کی والڈ سٹی اتھارٹی بنائی گئی ہے مگر وہ بھی عام سرکاری اداروں کی طرح صرف فائلوں کی حد تک ہی کام کرتی ہے لیکن عملی سطح پر کوئی کام نہیں کر رہی۔

اسلام آباد میں 6 سال سے زائد ہو گئے ہیں مگر بلاشبہ لاہور لاہور ہے۔ لاہور زندگی کا شہر ہے۔ حویلی سے جب چاروں طرف نظر دوڑائی تو ہر طرف گنجان آباد زندگی نظر آتی ہے۔ بقول ناصر کاظمی

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

لاہور کی یہ رونق ایک قفس ہے۔ لاہور کی زندگی انسان کو ہر طرح قید کرنے کی صلاحیت سے بھر پور ہے۔ انسان ایک دفعہ چشم بینا سے لاہور کو دیکھ لے تو بار بار اس رونق دیکھنے کے لئے جائے۔ ڈاکٹر فخر عباس نے لاہور کی اس اسیری کو ذیل الفاظ میں یاد رکھا ہے کہ

یہ جو لاہور سے محبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے۔
مگر میں ڈاکٹر صاحب سے معذرت کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ
یہ جو لاہور سے محبت ہے
دراصل یہ لاہور ہی سے محبت ہے۔ ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments