جمہوریت اور آمریت کے بیچ عدلیہ ہی حد فاصل ہے


پاکستان میں جاری سیاسی دنگل کی وجوہات و عوارض کے بارے میں کوئی ایک رائے تلاش کرنا مشکل ہے۔ معاشرہ جس بری طرح گروہی نفرتوں کا شکار ہو چکا ہے، اس میں اتفاق رائے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ سیاسی طور سے بالادستی حاصل کرنے کے لئے سب پارٹیاں اور لیڈر اپنے اپنے طور پر زور لگا رہے ہیں اور ان کے حامی کسی مناسب تجزیہ کے بغیر اندھی تقلید کے جذبے سے مسائل کا حل تجویز کرنے پر مصر ہیں۔

اس تصادم میں کچھ ریڈ لائنز بھی عبور کی جا رہی ہیں لیکن ملک میں اس وقت کوئی ایسا ادارہ بھی فنکشنل دکھائی نہیں دیتا جو فریقین کو بعض حدود کا احترام کرنے پر مجبور کرسکے۔ اس تناؤ میں بعض اداروں جیسے کہ پولیس اور الیکشن کمیشن کو بھی سیاسی پسند ناپسند کے مطابق مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے تو یہ دیکھا جا چکا ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے پولیس کو باقاعدہ دشمن کا درجہ دے کر اس سے محاذ آرائی ہی کو حب الوطنی یا سیاسی سرخروئی کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔ پولیس کے خلاف زمان پارک میں ہونے والی محاذ آرائی ہو یا اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں ایک معمول کی عدالتی کارروائی کی تعمیل کے لئے اپنی شرائط منوانے کا طریقہ کار، دونوں ہی صورتوں میں پولیس کو ہزیمت اور پسپائی اختیار کرنا پڑی ہے۔ کیوں کہ جس عدالتی نظام نے پولیس کو قانونی تحفظ اور اس کے اقدامات کو جواز فراہم کرنا تھا، وہ خود ’محو تماشائے لب بام‘ کے مصداق شش و پنچ کا شکار ہے اور معاشرے میں قانون کی بالادستی کے لئے مناسب اور ضروری کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔

گزشتہ چند روز کے واقعات سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح عدالتوں نے قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لیے قانونی اتھارٹی استعمال کرنے کی بجائے، سیاسی طور سے قابل قبول رویہ اختیار کرنے میں مصلحت سمجھی۔ کیا اس صورت حال میں یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک میں سیاسی دباؤ کی وجہ سے انصاف کے تقاضوں کو کمپرومائز کیا جا رہا ہے۔ ملکی عدلیہ پر اس سوال کا جواب واجب ہے کیوں کہ گزشتہ ہفتے کے دوران زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کے لئے آنے والی پولیس اور رینجرز کو ’مار بھگانے‘ کی کارروائی ہو یا اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں عمران خان کی حاضری کو یقینی بنانے کی بجائے جج پر تحریک انصاف کی شرائط منوانے کے لئے دباؤ کا طریقہ، دونوں صورتوں میں پولیس ہی نہیں بلکہ زیریں و اعلیٰ عدلیہ بھی راہ فرار اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے اصول قانون کی جو جگ ہنسائی ہوئی ہے اور اس سے معاشرے میں انتشار اور انارکی کی جو صورت حال پیدا ہوگی، ملکی عدلیہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار نہیں کرسکے گی۔

زمان پارک میں تصادم کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی پٹیشن پر پولیس ایکشن روکا حالانکہ اس موقع پر پولیس ’مظلوم‘ تھی اور عدلیہ کو اس کی طاقت بننا چاہیے تھا لیکن عدالت نے شاید اپنی عزت بچانے کے لئے تحریک انصاف ہی کو ریلیف دینا مناسب خیال کیا۔ اس کے بعد پولیس کو مسلسل کارروائی سے روکے رکھنے کا طریقہ بھی انصاف کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس کے بعد جمعہ کو لاہور ہائی کورٹ ہی کے مختلف بنچوں نے چند منٹوں کے اندر 9 مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی۔ ان میں متعدد مقدمات دہشت گردی اور پولیس پر حملہ کے الزام میں عائد کیے گئے تھے۔ یہ مثالی ریلیف دینے کے لیے بھی لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج ’درخواست گزار‘ کی سہولت کے مطابق اس کا انتظار کرنے کے لئے رات گئے تک عدالت میں بیٹھے رہے تاکہ کہیں انصاف کی فراہمی میں دیر نہ ہو جائے۔ اس کے بعد عام سائلین کے برعکس عمران خان کو اپنے حامیوں سمیت اپنی گاڑی میں سوار ہو کر عدالت میں پیش ہونے کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ اس بات کا جواب لاہور ہائی کورٹ کے فاضل منصف ہی فراہم کر سکتے ہیں کہ عدالتی تاریخ میں یہ سہولت کتنے سائلین کو فراہم کی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس میں بس ایک کمی رہ گئی کہ عدالت نے یہ پیش کش نہیں کی کہ ’عمران خان زحمت نہ کریں، عدالت ہی ان کے دولت کدے پر حاضر ہو کر درخواستوں کی منظوری کا اعلان کر دیتی ہے‘ ۔

البتہ یہ کسر جوڈیشل کمپلیکس میں پوری کروا لی گئی۔ یوں تو عمران خان وہاں سیشن جج کی عدالت میں فرد جرم عائد ہونے کی کارروائی کا حصہ بننے گئے تھے لیکن اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ہلڑ بازی کا ایسا ماحول پیدا کہ خود جج صاحب کو یہ پیشکش کرنا پڑی کہ عمران خان کمپلیکس کے باہر اپنی گاڑی میں ہی ’حاضری لگوا کر‘ واپس چلے جائیں۔ یہاں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ایکٹویسٹس نے جج ظفر اقبال کی تصویر کے ساتھ ان کے خلاف پروپیگنڈا کا بازار گرم کیا۔ سوموار کو ہونے والی عدالتی کارروائی اور عمران خان کی نام نہاد حاضری کے ڈرامے کا مشاہدہ کیا جائے تو سیشن جج کی بے بسی اور مجبوری کو محسوس جا سکتا ہے۔ عمران خان کو فرد جرم عائد کرنے کے لئے طلب کیا گیا تھا لیکن نہ جانے کس قانون کے تحت جج صاحب نے گاڑی میں بیٹھے عمران خان کو محض ایک دستخط کر کے نہ صرف واپس جانے کی اجازت دے دی بلکہ یہ معمول کی عدالتی کارروائی پوری ہونے کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی بجائے وکیلوں کی یہ درخواست منظور کرلی کہ آئندہ سماعت میں وہ توشہ خانہ کیس میں عائد الزامات کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دے سکیں گے۔ جب کہ فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کے لیے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے متعلقہ جج پر یہ واضح ہونا چاہیے تھا کہ اس مقدمہ کے قابل سماعت ہونے پر دلائل کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ اب ملزم کو فرد جرم عائد ہونے کے بعد اپنی صفائی پیش کرنا ہوگی۔

گویا جس ایک معاملہ پر ملک بھر میں ایک ہنگامہ برپا کروایا گیا تھا، اسی کے بارے میں ابھی طے نہیں ہوسکا کہ اس معاملہ میں فرد جرم عائد کی بھی جائے یا نہیں۔ اس کے علاوہ جس نام نہاد عدالتی دستاویز پر عمران خان کے دستخط لیے گئے تھے، وہ نہ پولیس کے پاس تھی اور نہ ہی عمران خان کے وکلا اور نمائندے اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار تھے۔ البتہ سیشن جج صاحب بے بس و لاچار ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی مثال بنے ہوئے تھے۔ کیا یہ طرز عمل ہمارے عدالتی نظام کی بے بسی ہے یا کسی مجبوری اور دباؤ نے سیشن جج کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔

عدالتوں پر دباؤ کی صورت حال کوئی نئی نہیں ہے لیکن ملکی تاریخ میں عدلیہ نے دباؤ مسترد کرنے کی بجائے دباؤ قبول کرنے اور ’طاقت ور‘ کو راضی کرنے کی روایت کو مضبوط کیا ہے۔ اسی معاملہ میں ایک مثال اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی قائم کی ہے جب ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے بارے میں ٹرائل کورٹ کو حتمی با اختیار فورم قرار دینے کے ایک ہی روز بعد اسے معطل کرنے کا پروانہ جاری کر دیا گیا۔ بس یہ عنایت ضرور کی کہ عمران خان کے وکلا کو متنبہ کر دیا کہ اگر وہ اب بھی پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ اب چیف جسٹس عامر فاروق کو سوچنا چاہیے کہ گزشتہ روز عمران خان کی ’حاضری‘ قابل قبول ہے یا اسے عدالت کو جُل دینے کا طریقہ سمجھا جائے۔ خاص طور سے جب وہ عدالتی دستاویز ہی غائب ہے جس پر عمران خان نے دستخط کر کے عدالت کے سامنے ’حاضر جناب‘ کہا تھا۔

ملک میں موجودہ بحران اس افسوسناک حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ملکی سیاست دان ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی فوجی اشاروں کے تحت طرز عمل اختیار کرتے رہے ہیں۔ سب سیاست دان اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے کسی بھی حد سے گزرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ نے بھی فوجی احکامات کے سامنے آئین و قانون کو ثانوی سمجھنے میں کبھی حیل و حجت سے کام نہیں لیا۔ فوج کی طرف سے ’غیر سیاسی‘ ہونے کا اعلان صرف سیاست دانوں پر ہی بھاری نہیں ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ عدالتیں بھی اس ’رہنمائی‘ کے بغیر خود کو بے دست و پا محسوس کر رہی ہیں۔ دعویٰ تو یہ کیا جاتا ہے کہ آئین کی روشنی میں قانون کی بالادستی قائم کرنا ہی عدلیہ کا شعار ہے لیکن نہ عدالتوں کی تاریخ سے یہ طرز عمل ثابت ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ موجودہ بحران میں آئینی تقاضوں کو پورا کروانے کے لئے کوئی موثر کردار ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔

منظر نامہ سے فوج کے غائب ہونے کے بعد جو سپیس پیدا ہوئی ہے، اس میں سیاسی و عدالتی نظام شدید بحران میں مبتلا ہے۔ سیاسی بحران تصادم کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے اور عدلیہ کی خاموشی و جانبداری سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ عدلیہ ملکی آئین کے تحت اس بحران کا حل تجویز کرنے اور متعلقہ اداروں اور کرداروں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر مجبور کرنے سے قاصر ہے۔ یہ رویہ ججوں کے اختلافات اور وابستگیوں کی وجہ سے زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ بھی حالات کی سنگینی کا احساس کر کے واضح حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام ہے۔ بلکہ حال ہی میں متعدد مقدمات کی صورت حال بتاتی ہے کہ ججوں میں پسند و ناپسند کی تقسیم عدالت عظمی کے فیصلوں میں نمایاں طور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

موجودہ بحران حل کرنے کے تین ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی لیڈر خود ہی دست و گریبان ہو کر معاملات طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ تاہم اس کے لئے فوج کی طرح عدلیہ کو بھی مکمل غیر جانبداری کا عملی مظاہرہ کرنا پڑے گا اور کسی دباؤ کو قانون کی عمل داری میں رکاوٹ بننے کی اجازت دینے سے انکار کرنا ہو گا۔ دوسرا طریقہ یہ کہ عدلیہ بعض رہنما اصول متعین کرے اور سیاسی لیڈروں کو ان ضابطوں کو ماننے پر مجبور کیا جائے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب عدلیہ مکمل طور سے غیر جانبدار ہو اور فریقین اس غیر جانبداری کو محسوس بھی کریں۔ تیسرا طریقہ وہی ہے جس نے پاکستان کی مختصر تاریخ میں ’میرے عزیز ہموطنو‘ کے عنوان سے شہرت پائی ہے۔ جب بھی کسی فوجی لیڈر نے قوم کو ان الفاظ سے مخاطب کیا ہے تو اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات تابعداروں کی سب سے پہلی قطار میں دکھائی دیے ہیں۔ اگر پاکستان کو بدنصیبی سے پھر سے ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تو کیا موجودہ عدلیہ اس تفہیم کو غلط ثابت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے کہ فوج ہمیشہ عدالت کی آشیر باد سے آئین پامال کرنے کا اقدام کرتی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments