’مجھے اپنا آپ ناپاک محسوس ہوا، گھر جا کر میں نے غسل کیا‘: جنسی ہراسانی سے نمٹنے کا ہتھیار سیفٹی پن


سیفٹی پن
انڈیا میں تقریباً ہر عورت کے پاس جنسی ہراسانی کی ایک کہانی سنانے کے لیے ہوتی ہے، وہ ہراسانی جس کا سامنا انھیں کبھی نہ کبھی کسی پرہجوم عوامی مقامات پر کرنا پڑا یعنی جب کسی نے انھیں جنسی طور پر ہراساں کرتے ہوئے ان کی چھاتیوں کو چھوا، یا ان کی پشت پر چٹکی کاٹی، کبھی اُن کے سینے پر کہنی ماری یا خود کو اُن کے جسم کے ساتھ جانتے بوجھتے ٹچ کیا۔

خواتین ایسی صورتحال میں جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں پر جوابی وار کرنے کے لیے اپنے پاس موجود اشیا کا استعمال کرتی ہیں، مثال کے طور پر دہائیوں پہلے جب میں اور میری دوست کالج کے دنوں میں مشرقی شہر کولکتہ کی رش سے بھرپور بسوں اور ٹرام میں سفر کرتے تھے تو اپنے دفاع کے لیے ہاتھ میں پکڑی چھتری کا استعمال کرتے تھے۔

ہم میں سے بہت سی خواتین اپنے ناخنوں کو لمبے اور تیز رکھتی تھیں تاکہ بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو نوچ سکیں، کچھ خواتین ان مردوں کو مارنے کے لیے اپنی جوتیوں کی نوک دار ہیلز کا استعمال کرتی تھیں جو بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عضو تناسل کو ہماری پشت کے ساتھ رگڑنے کی کوشش کرتے تھے۔

اور بہت سی دیگر خواتین ایک معمولی سے مگر مؤثر ہتھیار سیفٹی پن کا استعمال کرتی تھیں۔

سنہ 1849 میں اس کی ایجاد کے بعد سے ہی دنیا بھر کی خواتین سیفٹی پنوں کو کپڑوں کے مختلف حصوں کو ایک ساتھ رکھنے یا لباس کی اچانک خرابی سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔

جبکہ عالمی سطح پر خواتین انھیں اپنے ہراساں کرنے والوں کے خلاف لڑنے اور یہاں تک کہ ان کا خون نکالنے کے لیے بھی استعمال کرتی رہی ہیں۔

کچھ مہینے پہلے، انڈیا میں کئی خواتین نے ٹوئٹر پر یہ اعتراف کیا کہ وہ ہمیشہ اپنے ہینڈ بیگ میں یا اپنے پاس ایک سیفٹی پن رکھتی ہیں اور پرہجوم جگہوں پر ’بدکردار مردوں‘ سے لڑنے کے لیے یہ ان کا منتخب کردہ ہتھیار ہے۔

ان میں سے ایک خاتون دیپکا شیر گل نے ایک واقعے کے بارے میں لکھا جب انھوں نے واقعی اس کا استعمال کرتے ہوئے ایک شخص کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ واقعہ اس بس پر ہوا تھا جس پر وہ روزانہ دفتر جانے کے لیے سفر کرتی تھیں۔ اگرچہ یہ واقعہ دہائیوں پہلے رونما ہوا تھا لیکن انھیں آج بھی اس کی ایک ایک تفصیل یاد ہے۔

وہ اس وقت تقریباً 20 برس کی تھیں جبکہ ان کو ہراساں کرنے والے شخص کی عمر چالیس کے پیٹے میں تھی اور وہ ہمیشہ گرے رنگ کا سفاری سوٹ (انڈین طرز کا ٹو پیس سوٹ جو سرکاری ملازمین میں مقبول ہے) پہنتا اور کھلے سینڈل پہنتا تھا اور ایک مستطیل چمڑے کا بیگ ساتھ رکھتا تھا۔

’وہ ہمیشہ میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو جاتا، میرے اوپر جھکتا، اپنے پیٹ کا نچلا حصہ میری کمر کے ساتھ رگڑتا اور جب بھی ڈرائیور بریک لگاتا تو وہ میرے اوپر گرتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ان دنوں وہ بہت بزدل تھیں اور اپنی جانب توجہ مبذول کروانا نہیں چاہتی تھیں اس لیے مہینوں وہ خاموش رہیں۔‘

لیکن ایک شام جب ’اس شخص نے مشت زنی کرنا اور ان کے کندھے پر انزال شروع کیا‘ تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ بس اب بہت ہو گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے اپنا آپ ناپاک محسوس ہوا اور میں نے گھر جا کر غسل کیا اور میں نے اپنی والدہ کو بھی نہیں بتایا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس رات میں سو بھی نہیں سکی اور میں نہ اپنی نوکری چھوڑنے کے بارے میں بھی سوچا لیکن پھر میں نے اس شخص سے بدلہ لینے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ میں اس کو جسمانی طور پر گزند پہنچانا چاہتی تھی، اسے تکلیف دینا چاہتی تھی اور اسے آئندہ ایسا کرنے سے روکنا چاہتی تھی۔‘

اگلے دن دیپکا شیرگل نے اپنی فلیٹ جوتی کی بجائے اونچی ہیل والی جوتی پہنی اور سیفٹی پن سے لیس ہو کر بس پر سوار ہوئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جیسے ہی وہ میرے قریب آ کر کھڑا ہوا میں اپنی نشست سے اٹھی اور اس کے پیر کی انگلیوں کو میں نے اپنی ہیل والی جوتی سے دبایا۔ مجھے اس کے کراہنے کی آواز سنائی دی اور مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی۔ پھر میں نے سیفٹی پن کا استعمال کرتے ہوئے اس کے بازو کو زخمی کیا اور جلدی سے بس سے اتر گئی۔‘

اگرچہ وہ مزید ایک سال تک اسی بس کے ذریعے سفر کرتی رہی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس دن آخری مرتبہ انھوں نے اسے بس میں دیکھا تھا۔

خواتین ہراسانی

دیپکا شیرگل کی کہانی بہت تکلیف دہ ہے لیکن یہ کوئی انہونی نہیں ہے۔

30 کے پیٹے میں میری ایک ساتھی نے ایک واقعہ سنایا ایک شخص نے جنوبی شہروں کو کے درمیان چلنے والی بس میں رات کے سفر کے دوران اسے چھونے کی کوشش کی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ابتدائی طور میں، میں نے اسے اتفاقیہ سمجھتے ہوئے جھٹک دیا تھا۔‘

لیکن جب وہ مسلسل یہ کوشش کرتا رہا تو انھیں محسوس ہوا کہ وہ یہ سب جانتے بوجھتے کر رہا ہے اور اس نے ان کے ہیڈ سکارف میں موجود سیفٹی پن نے ’انھیں محفوظ رکھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اسے سیفٹی پن چھبائی اور وہ پیچھے ہٹ گیا، لیکن وہ بار بار مجھے چھونے کی کوشش کرتا رہا اور میں مسلسل اسے سوئی چھبونے کی کوشش کرتی رہی، آخرکار وہ باز آ گیا۔ میں خوش تھی کہ میرے پاس سیفٹی پن تھی لیکن مجھے اپنا آپ احمق محسوس ہوا کہ میں نے مڑ کر اسے تھپڑ کیوں نہیں مارا۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لیکن اس وقت میں جوان تھی اور مجھے یہ خدشہ تھا کہ اگر میں اس بارے میں شور مچاؤں گی تو لوگ میری حمایت نہیں کریں گے۔‘

خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ خوف اور شرم ہی خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے لیے آسان ہدف بناتی ہے اور یہ مسئلہ عام ہو چکا ہے۔

سنہ 2021 میں 140 انڈین شہروں کے ایک آن لائن سروے کے مطابق 56 فیصد خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ پر جنسی طور پر ہراساں کیا گیا لیکن ان میں سے صرف دو فیصد ہی پولیس کے پاس گئیں۔ ایک بڑی اکثریت نے کہا کہ انھوں نے خود کارروائی کی یا صورتحال کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا، اکثر خواتین نے کہا کہ وہ اس وجہ سے خاموش رہیں کیونکہ وہ کوئی تماشہ نہیں بنانا چاہتی تھیں یا انھیں صورتحال کے مزید بگڑنے کی فکر تھی۔

جبکہ اس سروے کے مطابق 52 فیصد سے زیادہ خواتین نے کہا کہ انھوں نے ’عدم تحفظ کے احساس‘ کی وجہ سے تعلیم اور ملازمت کے مواقع چھوڑ دیے تھے۔

خواتین ہراسانی

خواتین کے لیے عوامی مقامات کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرنے والی ایک سماجی تنظیم ’سیفٹی پن‘ کی شریک بانی کلپنا وشواناتھ کہتی ہیں ’جنسی تشدد کا خوف حقیقی تشدد سے زیادہ خواتین کی نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’خواتین خود پر پابندیاں لگانا شروع کر دیتی ہیں اور یہ ہمیں مردوں کے برابر شہری حقوق نہ دینے کے مترادف ہے۔ اس کا خواتین کی زندگی پر اصل جنسی حملہ ہونے سے کہیں زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے۔‘

کلپنا وشواناتھ کہتی ہیں کہ خواتین کو ہراساں کرنا صرف انڈیا میں ہی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ لندن، نیو یارک، میکسیکو سٹی، ٹوکیو اور قاہرہ میں 1,000 خواتین کے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ’ٹرانسپورٹ نیٹ ورک جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افراد کے لیے بہترین جگہیں تھیں جو خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے بھیڑ کے اوقات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اگر پکڑے جائیں تو بہانے کے طور پر رش کو وجہ قرار دیتے ہیں۔‘

وشواناتھ کہتی ہے کہ لاطینی امریکہ اور افریقہ کی خواتین نے انھیں بتایا ہے کہ وہ بھی سیفٹی پن اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ اور سمتھسونین میگزین نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ میں خواتین 1900 کی دہائی میں بھی ہراساں کرنے والے مردوں کو چھبونے کے لیے ہیٹ پنز کا استعمال کرتی تھیں۔

لیکن عوامی سطح پر خواتین کی ہراسانی کے پیمانے پر کئی عالمی سرویز میں سرفہرست ہونے کے باوجود انڈیا اسے ایک بڑا مسئلہ تسلیم نہیں کرتا۔

کلپنا وشواناتھ کہتی ہیں کہ اس کی جزوی وجہ ناقص رپورٹنگ ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ جرائم کے اعدادوشمار میں ظاہر نہیں ہوتا ہے۔ اور انڈین سنیما ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہراساں کرنا صرف خواتین کو بہلانے کا ایک طریقہ ہے۔

کلپنا کا کہنا ہے التبہ گذشتہ چند برسوں کے دوران مختلف شہروں میں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

دارالحکومت دہلی میں بسوں میں پینک بٹن اور سی سی ٹی وی کیمرے ہیں جبکہ مزید خواتین ڈرائیوروں کو شامل کیا گیا ہے۔ بس ڈرائیوروں اور کنڈکٹرز کو خواتین مسافروں کی طرف زیادہ ذمہ دار ہونے کے لیے تربیتی سیشن کا انعقاد کیا گیا ہے اور بسوں پر مارشلز (گارڈز) کو تعینات کیا گیا ہے۔ پولیس نے ایپس اور ہیلپ لائن نمبرز بھی شروع کیے ہیں جنھیں خواتین مدد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

مگر کلپنا کہتی ہیں کہ یہ ہمیشہ پولیسنگ کا مسئلہ نہیں ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں سب سے اہم حل یہ ہے کہ ہمیں اس مسئلے کے بارے میں مزید بات کرنی ہو گی، ایک مربوط میڈیا مہم چلانی ہو گی جس سے لوگوں میں یہ شعور پیدا ہو سکے کہ کیا قابل قبول رویہ ہے اور کیا نہیں۔‘

مگر جب تک یہ سب ہو گا تب تک دیپکا شیرگل، میری ساتھ اور لاکھوں انڈین خواتین کو اپنے ساتھ سیفٹی پنز رکھنا ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments