شاکرہ اور ناشکرا


تمہاری دو گردنیں بن گئی ہیں، شاکر نے گاڑی چلاتے ہوئے اپنی بیوی کے بڑھتے ہوئے وزن کو مذاق کا نشانہ بنایا۔ شاکر اور اس کی بیوی گھر سے ہسپتال جا رہے تھے جہاں وہ دونوں ایک ساتھ نرس کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ دونوں ٹیکساس یونیورسٹی میں نرسنگ اسکول میں پڑھتے تھے جہاں ان کی ملاقات ہوئی اور جلد ہی دونوں نے شادی بھی کرلی۔ وہ دونوں ہندوستانی مختلف زبانوں، علاقوں اور فرقوں سے تعلق رکھتے تھے، خاندان میں کچھ مزاحمت ہوئی لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کو سب نے ایک جوڑے کی طرح قبول کر لیا تھا۔

ان کے دو گول مٹول سے لڑکے تھے جو جڑواں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈے کیئر کے باہر گاڑی روکی اور بچے وہاں ڈراپ کیے۔ شاکر کی حالت دن بدن دگرگوں ہوتی چلی جا رہی تھی۔ شادی سے پہلے اس کی بیگم شاکرہ پتلی دبلی اور خوبصورت ہوتی تھی۔ شاکر نے بہت ترلے کیے تب جاکر وہ مانی تھی۔ دو بچوں کے بعد اس کا وزن کچھ بڑھ گیا تھا۔ شاکر جو شادی سے پہلے اس کی موجودگی میں خود کو بہت خوش اور مغرور محسوس کرتا تھا اب اس کی موجودگی میں اپنے دوستوں اور ساتھ میں کام کرنے والوں کے سامنے نہایت شرمندہ محسوس کرتا۔ اس کو لگتا تھا کہ سب افراد اس کی بیوی کو دیکھ رہے ہیں۔

شاکر کو ریستوران میں آتے دیکھ کر محسن نے اپنی ٹرے اٹھائی اور دوسرے دروازے سے نکل گیا۔ وہ روز کی طرح شاکر کی شکایتیں سننا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے شاکر کو کئی بار مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لے۔ شاکر ہمیشہ یہی باتیں کرتا سنائی دیتا تھا کہ میں اپنی بیوی سے بہت تنگ ہوں! اس میں یہ خرابی ہے، وہ خرابی ہے۔ ہم ساتھ میں ریستوران جائیں تو اس کو بچے بھی سنبھالنے نہیں آتے۔ وہ شور مچاتے ہیں اور میں دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوتا ہوں۔

اس کو اپنا سر ڈھانکنا اور تن چھپانا تک ٹھیک سے نہیں آتا۔ اس کی آواز کسی انجن کی سیٹی کی طرح چبھنے والی لگتی ہے۔ یہ زومبا ورزش معلوم نہیں کیا فتنہ شروع ہوا ہے ہمارے محلے میں۔ سب عورتیں ناچ ناچ کر ورزش کر رہی ہیں۔ شاکرہ کی پتلون بہت ٹائٹ لگتی ہے۔ محسن کے دل میں کئی بار خیال آیا کہ شاکر کو مشورہ دے کہ وہ اپنا نام ناشکرا رکھ لے لیکن اس نے یہ خیالات خود تک رکھے۔ بظاہر وہ ہاں میں ہاں ملاتا رہتا جس سے شاکر کر یہی تاثر ملتا تھا کہ دیگر افراد بھی اس کے خیالات سے متفق ہیں۔

شاکر نے اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ کہیں آنا جانا چھوڑ دیا۔ وہ ہر جگہ اس کی بے عزتی کا سبب دکھائی دیتے تھے۔ شاکر نے شاکرہ کو ہر دن بتانے کی کوشش کی کہ شاکرہ کو ذاکرہ کی طرح پراٹھے بنانے چاہئیں، سائلہ کی طرح دبلا ہونا چاہیے، زاہدہ کی طرح نوکری میں لیڈرشپ اور طاقت حاصل کرنی چاہیے اور عابدہ کی طرح مستقبل کے لیے پیسے جوڑنے چاہییں۔ لیکن اس کو شاکرہ یہ سب کچھ کرنے میں بالکل ناکام دکھائی دیتی تھی۔ شاکر یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کی بیوی کے گرد یہ سب بہترین رول ماڈل موجود ہیں لیکن وہ ان سے کچھ نہیں سیکھ رہی ہے۔

ایک دن ہسپتال میں ایک صاحب کی نبض بند ہو گئی اور سب نرسیں ادھر ادھر بھاگنے لگیں۔ شاکرہ نے فوراً ان صاحب کی کمر کے نیچے ایک سخت تختہ رکھا اور ان کے بستر پر چڑھ کر دونوں ہاتھ ان کے سینے پر رکھ کر سی پی آر کرنے لگی۔ اس کے ہلتے وجود کو دیکھ کر شاکر شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کمرے میں موجود تمام افراد شاکرہ کے گریبان میں جھانک رہے ہیں۔ وہ آکسیجن ٹینک ہاتھ میں تھامے منجمد ہو گیا تھا۔

کمرے میں دل کے مانیٹر کی مستقل سیٹیاں اور دائیں بائیں لوگوں کے چلانے سے اس کو ایک جھٹکے سے اپنے خیالات سے باہر آنا پڑا۔ اس نے شرمندگی سے فوراً یہ ٹینک انیستھیزیا کے ڈاکٹر کو دیا جو مریض کے پھیپھڑوں میں سانس کی ٹیوب ڈال رہے تھے۔ شاکرہ تھک گئی تو اس کی جگہ دوسری نرس نے لے لی۔ شاکرہ نے مہارت سے نسوں میں انجیکشن لگائے۔ مریض کو بچا لیا گیا تھا۔ شاباش ٹیم اور خاص طور پر شاکرہ! ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ شاکرہ کی مسکراہٹ میں تھکن لیکن فخر موجود تھا۔

ایک شام وہ ایک اور دوست جوڑے کے ساتھ ایک ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے۔ شاکرہ نے میٹھے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو شاکر نے اس کو ٹوکا۔ بس کرو بیگم، تم کافی کھا چکی ہو۔ ان کے دوستوں نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن وہ کچھ نہیں بولے۔ اگلی صبح شاکرہ بچوں کو ڈے کیئر میں ڈال کر جلدی جلدی کام پر جا رہی تھی۔ اس نے کیفے ٹیریا سے ایک پیالے میں فروٹ کے ٹکڑے ڈالے اور جلدی جلدی نرسنگ اسٹیشن کی طرف جانے لگی۔ اس میں اس کی ٹکر دروازے سے اندر آتے ہوئے محسن سے ہوئی اور فروٹ زمین پر بکھر گیا۔ محسن نے فوراً اس کو زمین سے جمع کیا اور کہا کہ آپ جلدی میں ہیں، چلی جائیں، میں ان کو کوڑے میں پھینک دوں گا۔ شاکرہ شکریہ کہہ کر چلی گئی۔

اگلے ہفتے ایک کزن کی شادی تھی۔ شاکرہ دونوں بچوں کو لے کر گئی۔ ایک کو کھلاتی تو دوسرا رونے لگتا۔ بھائی صاحب کدھر ہیں؟ کسی نے پوچھا! وہ ذرا مصروف تھے اس لیے نہیں آئے۔ ایسی کیا مصروفیت ہے؟ ان دونوں کی ایک ہی جگہ تو جاب ہے ناں! ایک خاتون کو یہ کہتے سن کر وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ یہ حالات زیادہ دیر تک نہ چل پائے۔ شاکرہ ہر جگہ اپنے شوہر کے بغیر دکھائی دیتی اور بچے خود سنبھال رہی ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کے لیے وجوہات گھڑ گھڑ کر تنگ ہو گئی تھی۔

آخر اس نے ایک دن اپنا سامان باندھا اور بچے لے کر گھر سے روانہ ہو گئی۔ جب شاکر گھر واپس پہنچا تو اس کے بیوی بچے گھر سے جا چکے تھے۔ شاکرہ ایک نوٹ اس کے لیے چھوڑ گئی تھی جس میں لکھا تھا کہ اس گھر اور خاندان کے لیے میں اپنے حصے سے دو سو فیصد زیادہ کام کرچکی ہوں، اگر یہ کافی نہیں ہے تو اس سے زیادہ نہیں کر سکتی ہوں۔

اگلے روز سے کام پر شاکر ہر روز محسوس کرتا کہ سب لوگ اس کے آرپار دیکھ رہے ہیں۔ وہ اوپر سے یہی ظاہر کرتا رہا کہ جیسے اسے کسی بات کی پرواہ نہیں۔ طلاق کا تمام پروسس ختم ہونے میں پورا سال لگ گیا۔ ایک خاندان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ایک پیچیدہ جذباتی اور قانونی کام نکلا۔ شاکرہ کو کام پر آتے جاتے دیکھ کر وہ ایک عجیب طرح کی تکلیف محسوس کرتا لیکن اس کو غرور سے جھٹک دیتا اور اپنے دوستوں سے کہتا کہ اچھا ہوا میری اس کم ذات عورت سے جان چھوٹ گئی۔ میرے خاندان والے درست کہتے تھے۔ وہ میرے لائق نہیں تھی۔ زاہدہ، عابدہ، سائلہ اور زاکرہ کسی نے اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

پھر پتا چلا کہ شاکر نے ایک دم کہیں دور تبادلہ کروا لیا۔ کئی سال گزر گئے۔ شاکرہ نے بچوں کے لیے پیسے حاصل کرنے کے لیے اس کا پیچھا نہیں کیا۔ ایک دن شاکر کی نظر فیس بک پر اپنے پرانے دوست محسن کی تصویر پر پڑی۔ اس نے محسن کی تصویر پر کلک کیا تو اس کے کور فوٹو کو دیکھ کر شاکر کے پیروں تلے زمین کھسکتی محسوس ہوئی۔ برابر میں شاکرہ تھی اور اس کے جڑواں بیٹے محسن کی گود میں بیٹھے مسکرا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments