کیا موٹرسائیکل، چھوٹی گاڑیوں کے لیے رعایتی پیٹرول کی فراہمی کا منصوبہ آئی ایم ایف معاہدے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے؟


پاکستان
’پی ڈی ایم کی جانب سے پیٹرول سبسڈی کا اعلان ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اس دن ڈاکٹر کے پاس نشے کی حالت میں پہنچ جائے جب اسے صحتیابی کا سرٹیفیکیٹ ملنے والا تھا۔‘

عزیر یونس نے ٹوئٹر پر اس رائے کا اظہار حکومت کی جانب سے اس اعلان کے بعد کیا جس کے مطابق موٹر سائیکل سواروں اور 800 سی سی سے چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والوں کو رعایتی نرخوں پر محدود حد تک پیٹرول فراہم کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے فی الحال اس ضمن میں صرف اعلان کیا گیا ہے، تاہم یہ رعایت کس طرح اور کس حد تک دی جائے گی اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں رعایت کے منصوبے کے اعلان کے بعد یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ آیا پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پیٹرول پر سبسڈی دینے کا سیاسی فیصلہ کر رہی ہے جو ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کر سکتا ہے یا پھر یہ واقعی ایک قبل عمل منصوبہ ہے جو غیر معمولی مہنگائی کی لہر میں عوام کو کچھ ریلیف فراہم کر سکے گا۔

اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان وہ سٹاف لیول معاہدہ ہے جو اب تک حتمی شکل اختیار نہیں کر سکا جس کی بنیاد پر قرضہ پروگرام کو بحال ہونا ہے اور پاکستان کو قرضے کی قسط وصول ہونی ہے۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے اس نئے منصوبے کے اعلان سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی۔

ایسے میں تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف کسی نئی حکومتی سکیم پر اعتراض کر سکتا ہے اور قرضہ بحالی کا پروگرام مزید تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔

رعایتی نرخوں پر پیٹرول پروگرام ہے کیا؟

پاکستان

واضح رہے کہ حکومت نے موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے والے صارفین کو رعایتی نرخوں کو پیٹرول فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر چھ ہفتوں بعد عملدرآمد ہو گا۔

وفاقی وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے گذشتہ رات جیو ٹی وی کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بتایا کہ ’اس رعایتی پروگرام میں کوئی سبسڈی نہیں دی جا رہی کیوںکہ ہم امیروں سے زیادہ پیسے لیں گے اور وہ پیسے غریبوں کو رعایتی قیمت پر پیٹرول دینے کے لیے استعمال کریں گے۔‘

یعنی اُن کے بقول حکومتی خزانے یا قرضے کی رقم سے اس پروگرام کے لیے کوئی پیسہ استعمال نہیں ہو گا۔

ڈاکٹر مصدق ملک کے مطابق ’موٹر سائیکل سوار اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان ملک کی پیٹرول کی مجموعی کھپت کا تقریباً نصف استعمال کرتے ہیں اور اس پروگرام کے تحت پچاس فیصد صارفین سے زیادہ پیسے وصول ہوں گے اور باقی پچاس فیصد کو رعایتی قیمت پر پیٹرول دے دیا جائے گا۔‘

مصدق ملک کے مطابق یہ پروگرام تین مرحلوں میں نافذ ہو گا جس میں ’پہلے مرحلے میں پیسے اکھٹے کرنے ہیں جس کے لیے پیٹرول کی قیمت بڑھائی جائے گی اور ایک بینک اکاوئنٹ میں اضافی پیسے ڈال دیے جائیں گے، اور اسی اکاؤئنٹ سے غریب لوگوں کو پیٹرول فراہم کرنے کے لیے پیسے فراہم کیے جائیں گے۔‘

ان کے مطابق دوسرا مرحلہ ہو گا موٹر سائیکل اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کا جس کے لیے صارف کا نام، شناختی کارڈ نمبر، رجسٹریشن نمبر اور فون نمبر استعمال ہو گا۔

’ہم رجسٹر کر لیں گے اور فون پر پیغام بھیجیں گے کہ آپ رجسٹر ہو چکے ہیں۔ یہ صارف ایک نمبر پر پیغام بھیجیں گے تو ان کو ایک کوڈ وصول ہو گا جسے پیٹرول پمپ کے اوپر سکین کرنے کا طریقہ کار بنایا جا رہا ہے جہاں شناختی کارڈ اور ون ٹائم پاس ورڈ ڈالا جائے گا اور اسی کے ذریعے پتہ چل جائے گا کہ یہ شخص کتنا فیول رعایتی نرخ پر ڈلوا سکتا ہے اور کتنا ڈلوا چکا ہے۔‘

مصدق ملک کے مطابق اگر کسی کو مجموعی طور پر 21 لیٹر دیا جا سکتا ہے تو ایک دن میں دو سے تین لیٹر سے زیادہ کا فیول نہیں دیا جائے گا۔

مصدق ملک نے دعویٰ کیا کہ غریب لوگ ماہانہ 21 لیٹر تک اوسطاً استعمال کرتے ہیں اور یہ ہندسہ اعدادوشمار کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔

مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ’اس طرح لوگ پیٹرول بھی کم استعمال کریں گے اور چھوٹی گاڑیوں کی جانب منتقل ہونے کی کوشش کریں گے۔‘

’حکومت نے آئی ایم ایف سے مجوزہ منصوبے پر مشاورت نہیں کی‘

پاکستان

آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پریز نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ پاکستانی حکام نے حالیہ فیول سبسڈی منصوبے کے اعلان سے قبل آئی ایم ایف سٹاف سے مشاورت نہیں کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’فنڈ سٹاف اس سکیم کی تفصیلات جان رہا ہے جن میں مالیت، ٹارگیٹنگ، فراڈ سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت شامل ہیں، جن کے بارے میں حکام سے بات چیت کی جائے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کے نزدیک کفالت کیش پروگرام کے تحت ضرورت مندوں کی براہ راست مدد کرنے کا حامی ہے۔‘

کیا حکومت کا منصوبہ مشکلات کا باعث بن سکتا ہے؟

واضح رہے کہ تحریک انصاف حکومت کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے تیل کی قیمتوں پر سبسڈی کا اعلان کیا تھا اور بعد میں اس فیصلے پر مختلف تجزیہ کاروں نے تنقید کی تھی۔

تاہم موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس پروگرام میں حکومتی پیسہ استعمال نہیں ہو گا۔

ماہر معیشت خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک پیچیدہ منصوبہ ہے اور اصل سوال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ممکن ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح سے منصوبہ بنایا گیا ہے اور جیسے اعلان کیا گیا ہے اس سے پیسے اکھٹا کرنا تو ممکن ہے لیکن سوال عمل پر ہے کہ کیسے حقداروں تک اس رقم کا فائدہ پہنچایا جائے گا۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آیا حکومت کے اس پروگرام سے آئی ایم ایف سے معاہدے پر اثر پڑ سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ اس کا اثر مالی اعتبار سے کتنا ہو گا۔

’اگر واقعی حکومت امیر سے پیسہ لے کر غریب کو سبسڈی دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو شاید اس کا آئی ایم ایف پروگرام پر اثر نہ پڑے۔‘

واضح رہے کہ فروری میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹیلینا جیورجیووا نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سبسڈی سے امیر کو فائدہ نہ پہنچے بلکہ ان لوگوں کو فائدہ پہنچے جو غریب ہیں اور حقدار ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’آئی ایم ایف کا قرض پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے مشروط‘ ہونے سے متعلق قیاس آرائیاں کیسے شروع ہوئیں؟

پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کا ملکی معیشت پر کیا منفی اثر پڑا؟

آئی ایم ایف کیا ہے اور یہ پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار ممالک کو قرض کیوں دیتا ہے؟

’یہ کوئی حل نہیں ہے‘

پاکستان

تاہم خرم حسین کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر اگر کامیابی سے عمل درآمد ہو بھی جائے تو اس سے مجموعی طور پر مہنگائی کے اثرات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ماہر معاشی امور ثنا توفیق بھی اس بات سے متفق ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا کہ کون سا طبقہ کتنا تیل استعمال کر رہا ہے اور اس طرز کے طریقہ کار میں غلط استعمال کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔‘

’دوسرا، اگر ایک طبقے کے لیے پیٹرول کی قیمت بڑھائی جائے گی تو وہ طبقہ بھی تو زیادہ ٹیکس اور مہنگائی کے بوجھ تلے ہے، اس پر کیوں زیادہ ٹیکس کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔‘

ثنا توفیق نے کہا کہ ’اگر آپ 50 فیصد طبقے کے لیے بھی پیٹرول کی قیمت بڑھائیں گے تو اس کا اثر پڑے گا، پیٹرول کی قیمت بڑھے گی تو ٹرانسپورٹیشن کی قیمت بڑھے گی اور اس کا منفی اثر زیادہ ہو گا۔‘

ثنا توفیق کے نزدیک حکومت اس پروگرام پر بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر عمل نہیں کر سکے گی۔

’حکومت نے چھ ہفتوں کا ٹائم اس لیے لیا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات ہو سکے۔‘

ثنا نے کہا کہ آئی ایم ایف براہ راست حقداروں کو کیش پروگرام کے ذریعے مدد فراہم کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور حکومت کو اسی طرح کا طریقہ نکالنا چاہیے۔

ثنا توفیق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موجودہ حکومت ایسے غیر مقبول اقدمات کر چکی ہے جو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے ضروری تھے تاہم اب الیکشن سے قبل عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے اور اقدامات سامنے آ سکتے ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’غریبوں کے علاوہ وہ طبقہ بھی ووٹ دیتا ہے جس پر زیادہ ٹیکس لگے اور ان کا بھی ووٹ بینک ہے جن سے وہ پیٹرول کے لیے زیادہ پیسے وصول کر رہے ہیں۔‘

خرم حسین کا کہنا ہے کہ ’رعایتی پیٹرول فراہم کرنے کا منصوبہ پی ڈی ایم کے لیے سیاسی طور پر زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم کی سیاسی مقبولیت اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ اس کی بحالی کے لیے یہ ایک منصوبہ کافی نہیں اور نہ ہی اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم ابھی الیکشن کی تیاری کر رہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments