پی ٹی آئی رہنما عاطف منصف کا قتل: 50 سال پرانی دشمنی جس میں ’50 سے زیادہ افراد‘ جانیں گنوا چکے ہیں


عاطف منصف
یہ کوئی پچاس سال پرانی دشمنی ہے جو دادا کی وقت پر شروع ہوئی اور اب پوتوں اور نواسوں کے درمیان بھی چل رہی ہے اور اسی دشمنی کے شاخسانہ ہے کہ پیر کو حویلیاں میں 11 افراد کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا اور پھر انھیں آگ لگا دی گئی۔

عاطف منصف پاکستان تحریک انصاف کے تحصیل چیئر مین تھے اور جس وقت ان پر حملہ ہوا اس وقت ان کے ساتھ لگ بھگ دس سے بارہ افراد موجود تھے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عاطف منصف اور ان کے ساتھیوں کا قتل پرانی دشمنی کا نتیجہ ہے۔ اس دشمنی میں مقامی لوگوں کے مطابق اب تک ’50 سے زیادہ ہلاکتیں‘ ہو چکی ہیں اور دونوں خاندانوں کے بیشتر مرد قتل ہو چکے ہیں۔ اس دشمنی میں اب تک جتنے بھی قتل ہوئے ہیں ان میں یہ حملہ سب سے زیادہ سنگین بتایا گیا ہے۔

منگل کی صبح حویلیاں میں مرنے والوں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔ اس دشمنی کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکیں کہ آیا یہ کوئی مالی تنازعہ تھا یا کوئی اور وجہ تھی لیکن دونوں جانب سے جانی نقصان بہت زیادہ ہو چکا ہے۔

1970 کی دہائی میں شیر خان اور بلند خان کے درمیان شروع ہونے والی دشمنی آج 2023 میں بھی جاری ہے لیکن اس دشمنی کے خاتمے کے لیے راضی نامے کی کوششیں یا تو کم ہی کی گئیں اور اگر کی گئیں تو وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔

واقعہ کیا ہے؟

خیبر پختونخوا کے ضلع ابیٹ آباد میں پولیس تھانہ حویلیاں میں درج ایف آئی آر کے مطابق تحصیل ناظم عاطف منصف اپنے محافظوں اور ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی میں جا رہے تھے کہ لنگراہ کے مقام پر پہلے سے تاک میں بیٹھے افراد نے ان پر حملہ کر دیا۔

پولیس کے مطابق جس مقام پر حملہ کیا گیا وہاں چڑھائی ہے اور عاطف منصف کی گاڑی کے آگے ایک چھوٹی پک اپ آئی جس سے عاطف منصف کی گاڑی آہستہ ہو گئی۔ اس موقع پر وہاں موجود حملہ آوروں نے شدید فائرنگ کی جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار محافظوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہیں ملا۔

اس حملے کے بعد گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ کے بارے میں متضاد اطلاعات ہیں جن میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے آتشگیر مادہ گاڑی پر ڈالا جس سے آگ بھڑک اٹھی اور بیشتر لاشیں شناخت کے قابل بھی نہیں رہی تھیں۔ یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ فائرنگ سے گاڑی کے پیٹرول ٹینک میں آگ لگ گئی جس سے گاڑی جل کر راکھ ہو گئی۔

حملے کے بعد گاڑی میں آگ کے شعلوں اور لاشوں کے جلنے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں۔

پولیس تھانے میں ایف آئی آر عزیر شیر خان کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جس میں 12 سے 13 افراد کو نامزد کیا گیا ہے جن میں سے کچھ کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں قتل اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔

حویلیاں تھانے کے ایس ایچ او افضل خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے کوششیں جاری ہیں اور اس میں کچھ گرفتاریاں ہوئی بھی ہیں لیکن تاحال اس بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد اس حملے میں ہلاک ہونے والے کچھ افراد کی شناخت نہیں ہو پارہی تھی کیونکہ لاشیں جل گئی تھیں لیکن اب تمام گیارہ افراد کی شناخت ہو گئی ہے۔

عاطف منصف

عاطف منصف خان کی مقبولیت

حویلیاں میں منصف خان خاندان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عاطف کے والد منصف خان اس علاقے سے رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر رہ چکے تھے۔ عاطف منصف گزشتہ سال بلدیاتی انتخابات سے چند ماہ پہلے رہا ہوئے تھے اور رہائی کے وقت ان کا شاندار استقبال بھی کیا گیا تھا۔ وہ ایک قتل کے الزام میں جیل میں تھے۔

بلدیاتی انتخابات میں وہ تحصیل چیئرمین کی نشست پر آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اترے اور مد مقابل پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے امیدواروں کو شکست دی تھی۔ انھوں نے کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

ہری پور سے مقامی لوگوں نے بتایا کہ عاطف منصف لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے اور وہ ایک عوامی شخصیت تھے۔ پیر کو جب ان پر حملہ کیا گیا تو اس سے تھوڑی دیر پہلے وہ راستے میں رک کر بچوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلے تھے اور ان کی یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے۔

دشمنی کیسے شروع ہوئی؟

مقامی لوگوں کے مطابق یہ دشمنی کوئی پچاس سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق 1970 کی دہائی میں مقامی رہنما شیر خان کو قتل کیا گیا اور اس کا الزام بلند خان پر عائد کیا گیا تھا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ شیر خان اس وقت ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین تھے اور بلند خان ان کے قریبی تھے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا یہ بزنس پارٹنر تھے یا کوئی اور تعلق تھا۔

اس کے بعد بلند خان کے بیٹے کو قتل کیا گیا تھا اور الزام شیر خان کے بیٹوں پر عائد کیا گیا۔ ان دونوں قتل کے بعد دونوں جانب سے راضی نامہ کی کوششیں شروع کی گئیں اور یہ تقریب بلند خان کے ہاں منعقد ہوئی اور اس دوران بلند خان کو قتل کر دیا گیا اور اس کا الزام دوبارہ شیر خان کے بیٹوں پر عائد کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد راضی نامے کی کوششیں ختم ہو گئیں لیکن ایک لمبے عرصے تک دونوں طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی۔

مقامی صحافی صداقت جان نے بی بی سی کو بتایا کہ 1996-97 میں ایک مرتبہ پھر اس دشمنی میں شیر خان کے ایک بیٹے یونس خان کو کچہری میں قتل کر دیا گیا اور اس کا الزام بلند خان کے بیٹوں پر عائد کیا گیا۔ اس کے بعد 2002 میں شیر خان کے بیٹے اور عاطف منصف کے والد منصف خان کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ اس کا الزام بھی بلند خان کے بیٹوں پر عائد کیا گیا۔ منصف خان صوبائی وزیر اور رکن صوبائی اسمبلی بھی رہ چکے تھے۔

یہ سلسلہ یونہی چل رہا تھا کہ مئی 2015 میں بلند خان کے بیٹے جاوید خان جو اس وقت ہری پور میں ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن تھے، ان کے قافلے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں جاوید خان زحمی ہوئے لیکن ان کے ساتھ 6 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دسمبر 2015 کو جاوید خان کو عدالت کے احاطے میں ہی قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح کراچی میں عاطف منصف کے ایک کزن کو قتل کیا گیا تھا۔ اس الزام میں عاطف منصف کے کزنز اور رشتہ دار گرفتار تھے اور اسی دوران عاطف منصف کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔

عاطف منصف نے گزشتہ بلدیاتی انتخابات کے لیے نامزدگی کے کاغذات جیل سے ہی داخل کرائے تھے، انتخابات سے پہلے وہ رہا ہو چکے تھے اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments