مہنگا آٹا سستے لوگ


اپنی تحریر کا آغاز کہاں سے کروں اور انجام کس پر کروں؟ اس عجیب کشمکش میں مبتلا ہوں کہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ آٹا مہنگا ہو رہا ہے یا لوگ سستے ہو رہے ہیں، ہر گلی ہر قصبہ اور ہر شہر کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑے سفید پوش فرشتے اور کچھ معصوم روحیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ یہ محض لفاظی نہیں بلکہ حقیقت سے کہیں دور کا تصور ہے جو صرف آنکھوں سے دیکھنے پر ہی یقین آتا ہے۔

صبح تقریباً سات سے آٹھ بجے کے درمیان دفتر کے راستے میں جب میں نے یہ لمبی قطار دیکھی اور سوچا کہ بارش کے اس موسم میں جب آپ گھر کی چار دیواری اور بستر چھوڑنے کا تصور بھی نہ کرتے ہوں تو یہ بھوک ہی ہے جو آپ کو در بدر پھراتی ہے اور اس عالم میں اتنی لمبی قطار دیکھ کر ایسا لگا جیسے کسی نے مفت لنگر تقسیم کیا ہے تو دل کو کچھ بھلا سا لگنے لگا، لیکن جب نظر اس گاڑی پر پڑی جس میں سبز رنگ کے کچھ تھیلے تھے تو پتہ چلا کہ یہ وہی مال غنیمت ہے جو مفت ملنا تو کسی انسان کی سوچ میں بھی نہیں۔ اس کی قدر ٹھنڈے چولہے اور ننگے صحن میں بھوک سے بلکتے بچوں اور ان کے کفیلوں کو ہی معلوم ہے۔ اب تھیلوں کو کن ناتواں کندھوں پر لے جانا ہے اور بارش سے کیسے بچانا ہے یہ ان قطاروں میں کھڑے مضبوط لوگ ہی جانتے ہیں جن کے قدم لڑکھڑاتے نہیں ہیں۔ ہاں سکت ختم ہو جائے تو یہ وہیں دم توڑ دیتے ہیں!

یہ سب منظر میری آنکھوں کو بھلا تو نہیں لگا لیکن ہم بھی تو ان ہی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے بے حسی کی انتہا کر رکھی ہے، ہمیں فکر ہو بھی تو کیوں ہوں، ہم تو پیٹ بھر کے کھا رہے ہیں، اور اس مہنگے آٹے کی لمبی قطاروں سے بہت دور کھڑے ہیں اور اتنا دور کھڑے ہیں کہ ہمیں اس مہنگے آٹے کی سیاہ رنگت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اب افسوس کریں تو کس پر کریں اور ملامت کریں تو کیوں کریں، ہمارا تو پیٹ بھر رہا ہے، آٹا سستا ہو یا مہنگا ہمارے گھر کا راشن کم نہیں ہوا، اور اسے رب کریم کا احسان سمجھ کر ہم کیسے سکون کی نیند سو رہے ہیں؟ ہاں، صرف یہ سوچ کر نیند آجاتی ہے کہ پیٹ کا جہنم تو بھرنا ہی ہے تو جس کا پیٹ ہے اسی کو فکر کرنی چاہیے۔ یہاں ایک شعر یاد آیا کہ،

گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بچے غریب شہر کے فاقوں سے مر گئے

ہاں خیر، مرنا تو برحق ہے، ہم انسان اس میں خود کو کیوں مجرم ٹھہرائیں، کہتے ہیں کہ مرنے کا کؤی وقت مقرر نہیں اور نہ کؤی جگہ مقرر ہے۔ لیکن افسوس کے ہم روٹی چھیننے اور چھپانے میں اتنا مشغول ہیں کہ ہمیں کسی کے مرنے سے اب کؤی فرق نہیں پڑ رہا، سفید آٹے کی دھکم پیل میں سفید پوش مر رہے ہیں جبکہ ہمارے معززان لاہور اور اسلام آباد کی دھکم پیل میں لگے ہوئے ہیں، ہر کؤی دوسرے کو گرانا چاہتا ہے اور باقی کے تماش بین تالیاں بجانے میں اتنے مشغول ہیں تو کسی کو فرصت ہی نہیں کہ وہ ان مہنگی اور سستی چیزوں کو توجہ دے۔ شاید یہ قلم بھی اس صورتحال کی درست عکاسی کرنے سے قاصر ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ

(منقول شعر)
بہت مجبور آنکھیں تھیں بہت بے ربط جملے تھے
ضرورت کو بیاں کرنے سے اک خود دار قاصر تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments