’جمہوریت کے امپائر‘: انڈیا میں گورنر کا عہدہ ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے؟


انڈیا
گذشتہ ہفتے انڈیا کی سپریم کورٹ نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ریاستوں کے گورنر جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ نہ ہو کہ اُن کی وجہ سے کسی ریاست کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔

عدالت کا اشارہ مہاراشٹرا کے گورنر کی جانب تھا جنھوں نے گذشتہ سال ریاست کی اسمبلی میں حکمراں جماعت کو ایک متنازع اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا تھا جس کے بعد حکومت گر گئی تھی۔

اس وقت مہاراشٹرا میں شیو سینا سب سے بڑی جماعت تھی جو اتحادیوں سے مل کر حکومت چلا رہی تھی۔

تاہم چند افراد نے بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہاتھ ملا لیا اور ایک نیا اتحاد تشکیل پایا جس کے بعد ریاست کے گورنر بگھت سنگھ کوشیاری نے شیو سینا رہنما اودے ٹھاکرے کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا۔ اودے ٹھاکرے نے اس ووٹ سے قبل جون میں استعفی دے دیا۔

گذشتہ ہفتے اسی معاملے پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران انڈیا کے چیف جسٹس دھننجایا چندراچد نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا گورنر کا فیصلہ غلط تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’گورنر ایسا اقدام نہیں اٹھا سکتا جس سے کسی حکومت کا خاتمہ ہو جائے، یہ ہماری جمہوریت کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔‘

معاملہ صرف ایک ریاست تک محدود نہیں۔ انڈیا کی جنوبی ریاستوں کیرالہ اور تیلنگانہ کی حکومتوں نے مقامی گورنروں پر تنقید کی ہے کہ وہ مجوزہ حکومتی قوانین پر دستخط نہیں کر رہے۔

تیلنگانہ کی حکومت نے گورنر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایک آئینی بحران پیدا کر رہے ہیں جس کے خلاف انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کیا ہے۔

انڈیا

واضح رہے کہ تیلنگانہ میں ایک علاقائی پارٹی کی حکومت ہے جبکہ کیرالہ میں بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد برسراقتدار ہے جبکہ دونوں ریاستوں میں گورنر بی جے پی کے تعینات کردہ ہیں۔

انڈیا میں ریاست کا گورنر ملک کے صدر، وزیر اعظم کے مشورے سے تعینات کرتے ہیں۔

اگرچہ گورنر کا عہدہ زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہوتا مگر ان کے پاس قانونی، ایگزیکٹیو طاقت ہوتی ہے۔ کسی سیاسی بحران کے دوران، جیسا کہ جب ریاست کے الیکشن نتیجہ خیز نہ ہوں، گورنر کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ کون سی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔

گورنر کے پاس یہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ وہ اسمبلی سے منظور شدہ قانون کو روک سکیں۔ کرکٹ کی اصطلاح میں ایک ریاست کا گورنر ’جمہوریت کا امپائر‘ مانا جاتا ہے۔

لیکن انڈیا میں ایک طویل عرصے سے ریاستی گورنر سیاسی جانب داری کے الزامات کی زد میں رہے ہیں جو مرکز کی حکومت کی ایما پر کام کرتے ہیں، یعنی دلی میں موجود برسراقتدار جماعت۔

مکل کیساون ایک مؤرخ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گورنر کی تعیناتی کا طریقہ اور ان کی مدت میں ابہام کی وجہ سے وہ مرکزی حکومت سے منسلک رہتے ہیں اور غیر جانب دار امپائر نہیں بن پاتے۔

روایتی طور پر دلی کی حکومتیں اپنے مخالفین کے تعینات کردہ گورنر کو ہٹا دیا کرتی ہیں جس کی وجہ سے یہ عہدہ سیاست زدہ ہو چکا ہے۔

جب ایک تحقیق کے دوران 1950 سے 2015 تک گورنر کے عہدے کا جائزہ لیا گیا تو یہ دیکھا گیا کہ صرف ایک چوتھائی نے ہی اپنی پانچ سال کی مدت مکمل کی جب کہ 37 فیصد ایک سال سے کم عرصہ ہی عہدے پر رہ سکے۔

انڈیا

روایات کے برخلاف مرکزی حکومت ریاستی گورنر کی تعیناتی سے قبل ریاست کی مقامی حکومت سے مشورہ بھی نہیں کرتی جس کی وجہ سے ایک تناؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

دہائیوں سے ریاستی گورنر مقامی ریاست کی راہ میں ایک رکاوٹ سمجھے جاتے رہے ہیں۔ بی کے نہرو، جو ایک درجن سے زیادہ ریاستوں کے گورنر رہے، نے ایک بار کہا تھا کہ یہ عہدہ حکمران جماعت کے عمر رسیدہ رکن کے لیے پرتعیش ریٹائرمنٹ کی طرح ہوتا ہے۔

یہ حیران کن نہیں کہ اس عہدے پر ہمیشہ پارٹی کے وفادار رکن کو تعینات کیا جاتا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ ان کو خدمات کا صلہ دیا گیا ہے۔

پروفیسر اشوک پنکج کی تحقیق کے مطابق 1950 سے 2015 تک اکثریت یعنی 52 فیصد گورنر سیاست دان رہے یا پھر بیوروکریٹ (26 فیصد)۔ ان کے علاوہ جج، وکیل، دفاعی حکام اور اساتذہ بھی گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔

شاید اسی لیے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گورنر کے عہدے کو ہی ختم کر دیا جائے۔ دی پرنٹ کے مدیر شیکھر گپتا کہتے ہیں کہ ’یہ عہدہ نفرت انگیز ہے، اگر ایک دن یہ ختم ہو جائے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔‘

لیکن یہ کہنا آسان ہے۔ کیساون کہتے ہیں کہ اگر گورنر کا عہدہ آئینی طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا تو بہتر کام یہ ہو گا کہ ان کے اختیارات کم کر دیے جائیں۔

انڈیا میں گورنر کے عہدے پر ہونے والی ایک نئی تحقیق، جسے ودہی سینٹر فار لیگل پالیسی تھنک ٹینک نے شائع کیا ہے، میں تجویز کیا گیا ہے کہ اس دفتر کو ختم کرنے کے بجائے اصلاحات کی جائیں۔

اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گورنر کی تعیناتی اور اسے ہٹانے کا اختیار مرکز کے پاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا طریقہ تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ گورنر کی جانب سے اپنے اعمال کی تحریری وجوہات کو عام کیا جائے۔

اس تحقیق کے ایک مصنف، للت پانڈا، کا کہنا ہے کہ گورنر کی ذمہ داریاں ایگزیکٹیو یا عدلیہ کو منتقل کرنے سے دونوں ہی سیاسی ہو جائیں گے۔

کے وی وشوانتھن ایک وکیل ہیں جو اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ’مسئلہ گورنر کے عہدے میں نہیں بلکہ ان لوگوں میں ہے جو اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس عہدے کو ختم مت کریں۔ گورنر کے ایکشن کی وجوہات ریکارڈ کریں، ان کو عام کریں لیکن ان کی تعیناتی کے عمل کو شفاف کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کو کوئی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments