منگتا درویش اور ڈھکن


برصغیر کی حد تک تو میں یقین کی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ پنجابی ایک ایسی زبان ہے جس میں مزاح کا عنصر سرحد کے دونوں طرف (پاک و ہند) اپنی زبان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ مزاح کے طور پر استعمال کرنے کے لئے اپنی ذات تک بھی مزاح سے باز نہیں آتے اور خود کو بھی جگت لگانے سے فرار اختیار نہیں کرتے۔ جبکہ دوسری تمام مقامی زبانوں میں یہ دریا دلی اور مزاح کا رخ خود کی طرف موڑنا بہت کم ہے۔ کافی عرصہ پہلے ہمارا دوست ڈھکن نے ہمیں ایک ڈرامے کے کردار کے بارے میں بتایا۔ اس کردار کا نام منگتا درویش تھا۔ دکھ ہو سکھ ہو خوشی ہو غم ہو دن ہو رات ہے منگتے درویش کی ایک ہی رٹ ہوتی ہے۔ منگا روٹی (روٹی منگواؤ)

دنیا کا کوئی بھی ادیب ہو جب بھی وہ اپنی کسی تحریر میں کوئی اچھا یا برا کردار تخلیق کرتا ہے۔ وہ کردار تھوڑی سی کمی و بیشی کے ساتھ اس معاشرہ میں موجود ہوتا ہے یہ ذمہ داری پھر اس قاری کی ہوتی ہے کہ وہ بیان کردہ کردار کو معاشرہ میں تلاش کرے تب قاری کو اس تحریر کو پڑھنے سمجھنے میں وہ مزہ آتا ہے وہ معلومات ملتی ہیں کہ بقول شاعر

وہ حال ہے اندر سے کہ بیاں ہے باہر سے
منگتا درویش صاحب ہمارے ڈھکنوں کا درویش ہے

منگتا درویش صاحب نے کب سے منگا روٹی کا نعرہ مستانہ بلند کیا تاریخ خاموش تو نہیں لیکن خاص واضح بھی نہیں کیونکہ منگتا درویش صاحب نے آج تک سیدھی سادھی بات اور دو ٹوک بات کبھی نہیں کی بس استاد جیدی مرحوم کی طرح۔ ہے کہ نہیں ہے والی کیفیت برقرار رکھی تاکہ ادھر ادھر مڑنے میں آسانی رہے۔

تاریخ کہتی ہے کہ منگتا درویش صاحب نے جب منگا روٹی کا نعرہ بلند کیا تھا تب اس سے مراد واقعی روٹی ہی تھی لیک بعد میں یہ نعرہ عمرو عیار کی زنبیل کی طرح اتنا کشادہ ہو گیا کہ اس منگا روٹی میں مفت کا گھر گاڑیاں جہاز، جہاز بننے کا تمام سامان جوتے کپڑے موریوں والی قمیض بلکہ اخیر المومنین تک کا سفر خیر تک شامل ہو گیا۔

ہماری نئی نسل نے نہ تو شیخ سعدی، مولنا رومی اور الف لیلی کا دور دیکھا نہ اس کے درویش دیکھے نہ اس دور کے درویشوں کا خاص مطالعہ کیا اس لئے ہم نے انہی لوگوں کو درویش سمجھا جو کسی مزار کی تنگ تاریک جگہ پے یا پہاڑ کی چوٹی پے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور سرخ آنکھیں نکالے موری والی قمیض پہنے روحانیت (اس کو روحونیت نہ پڑھا جائے ) کا درس دیتے ہیں اور جب بھی وجد کی کیفیت آتی نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے منگا روٹی!

ہمیں شروع سے روحانیت کی تلاش تھی اس طرح خدا کا کرنا یہ ہوا (حالانکہ ساری شرارت ڈھکن کی تھی) ہمارے کافی سارے ڈھکن دوستوں میں سے ایک روحانیت سے مالا مال ڈھکن دوست ایک دن منگتا درویش کے پاس لے گیا بجائے کچھ کہنے کے فوراً وجد میں آ کے کہا منگا روٹی

ڈھکن دوست کی للچائی التجائی اور روحانیت سے بھرپور منحوس شکل دیکھ کر حسب توفیق منگا روٹی کے کلیہ کے تحت دان کیا۔

منگتا درویش نے خوشی ہو کے ہماری طرف روحانیت والی مدہوش سرخ نظر سے دیکھا اور کہا دیکھو ڈھکن کیا چاہیے میں نے درویش سائیں ایک ہی خواہش ہے منگا روٹی!

ہمارا یہی کہنا روحانیت سے سرشار اور منگتا درویش کی ڈی ہوئی تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ آوازیں اور قصیدے پڑھنے شروع کیے کہ ہم سند یافتہ ڈھکن بننے کے بجائے اور روحانیت سے پرباش ہوئے بغیر بھاگ آئے۔

منگتا درویش چونکہ خود کوئی کام نہیں کرتا اور ہمیشہ سے منگا روٹی والے روحانیت کے نعرہ سے دھڑلے سے جی رہا ہے تو جب ڈھکن اس کی گفتگو سنتے ہیں

دیکھو میرے ڈھکنو! میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی جوتی کپڑے ”پاؤڈر“ سب کچھ تھا حالانکہ راوی کہتا ہے منگا روٹی کے درویشانہ نعرہ سے پہلے منگتا درویش بھی ڈھکن ہی تھا

اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا آپ کے بارہ موسموں، موریوں والی قمیض، اور کامیابیوں ( پتہ نہیں کون سی ) پے عش عش کر اٹھے تو ہمیشہ یہ نعرہ لگائیں منگا روٹی

منگدے درویش کو بھی پتہ ہے منگا روٹی سے میری درویشی اور بڑے بڑے ڈھکن تو روحانیت کے درجے پے رہیں گے لیکن یہ ڈھکن ہمیشہ ڈھکن ہی رہیں گے اب یہ بات ڈھکنوں کو کون سمجھائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments