با اختیار خاتون، شاندار خاتون


میرا ہمیشہ سے ماننا ہے کہ ہر حق اپنے ساتھ ایک ذمہ داری کو جنم دیتا ہے یعنی Every right has a corresponding liability۔ وہ کسی بھی قسم کا حق ہو۔ تعلیم ایک حق ہے تو بہتر شہری بننا ایک ذمہ داری۔ اس لئے جب حق مانگا جائے تو ذمہ داری کو بھی تسلیم کیا جانا چاہیے۔

جدید معاشرہ میں خواتین کی خودمختاری اور با اختیاری کو حق مانا جاتا ہے۔ مغربی معاشروں میں خواتین کو یہ حق بہت بعد میں ملا۔ بیسویں صدی کے اوائل تک خواتین کو حقوق حاصل نہ تھے۔ خواتین نے اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑی، گویا یہ معاشرتی جنگ تھی مگر لڑی گئی۔ خواتین اس جنگ کو جیتنے میں کامیاب تو ہو گئی حق حاصل کر لئے مگر اپنی ذمہ داریاں تسلیم کرنے سے منکر ہیں جو معاشرتی بگاڑ کا سبب بن رہی ہیں۔

اس کے برعکس اسلام نے ہمیشہ سے خاتون کو با اختیار مانا ہے۔ ہمیں حضرت خدیجہ الکبری (رض) کی صورت ایک با اختیار بزنس وومن کا ماڈل دیتا ہے۔ حضرت ام عمارہ (رض) کی طرح کی دلیر جنگجو بھی اسلامی اولین معاشرہ کی مثالیں ہیں۔ اسلام خواتین کو بہتر حقوق دیتا ہے تو بھاری ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے۔

خواتین کو با اختیار بنانے کے عظم سے 8 مارچ دنیا بھر میں خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں جسٹس عائشہ اے ملک کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ محترمہ حافظہ آمنہ سعدیہ نے مارچ کے مہینے کو خواتین کا مہینہ قرار دینے ہوئے مارچ کے مہینے کو March سے تشبیہ دی۔ March سے مراد فوجیوں کا مخصوص انداز میں چلنا ہوتا ہے جو کہ مشقت کو درشاتا ہے۔ جسٹس عائشہ کو دعوت دیتے وقت ماہم ایاز نے تاریخی الفاظ کہے کہ ہم ایک خاتون کو ماں، بہن یا بیٹی کے روپ میں تو یاد رکھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہی خاتون CEO بھی ہے، جج بھی ہے وکیل بھی ہے۔

جسٹس عائشہ ملک کی موجودگی ہی ایک خوشگوار احساس کا پیش خیمہ تھی۔ پاکستانی خواتین میں جسٹس عائشہ سے با اختیار اور کون ہو گا کہ جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون جج ہیں اور 2030 میں پاکستان کی پہلی خاتون چیف جسٹس بنیں گی۔ بلاشبہ جسٹس عائشہ خواتین کے با اختیار ہونے کا مجسم استعارہ ہیں۔

انہوں نے اپنے مختصر مگر جامع اس خواتین کو با اختیار بنانے کے امر کا احاطہ کیا۔ ان کے خطاب کا خلاصہ یہ ہی تھا کہ اگر خواتین کو با اختیار بنانا ہے تو اس بارے میں لکھا جائے اس امر کے فوائد لکھے جائیں۔ اس امر کی حدود و قیود بہنوں، بیٹوں سے ڈسکس کیے جائیں تو ہی معاشرہ با اختیار خواتین پیدا کرنے کے قابل ہو گا۔

راقم نے ان کے خطاب کے اختتام پر سوال کیا کہ خواتین کا با اختیار ہونا socially adoptable تو ہے جیسا کہ محترمہ صباحت رضوی لاہور ہائی کورٹ بار کی سیکرٹری منتخب ہوئی ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ راقم نے اپنے 5 سالہ کیرئیر میں واحد خاتون امیدوار دیکھی ہے۔ تو اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ خواتین سامنے نہیں آتی، تو کیسے خواتین کو اس امر کا احساس دلایا جائے کہ وہ اب معاشرتی طور پر بھی کافی با اختیار ہیں؟ اس ضمن میں جسٹس عائشہ نے راقم کی توجہ اس امر کی طرف دلائی کہ ان کے والد، ان کے شوہر اور بیٹے ان کی سب سے بڑی سپورٹ ہیں تو اگر عوام اپنی بیٹیوں کو با اختیار بنانا چاہتے ہیں تو ان کو سپورٹ کریں۔

آخر میں انہوں نے ماہم سے اتفاق کرتے ہوئے اس بات کو آگے بڑھایا اور کہا کہ یہ ہرگز نہ بھولیں کہ خواتین سب سے پہلے انسان ہیں۔ القصص جسٹس عائشہ نے اپنی با اختیاری کا سہرا اپنے گھر کے مردوں کے سر ہی رکھا۔ انہوں نے حقوق کی بات تو کی لیکن ساتھ فرائض پر بھی توجہ دینے کے امر پر زور دیا۔ مثلاً انہوں نے یہ بات سامعین کو باور کرائی کہ وہ ایک با اختیار خاتون ہونے کے ساتھ ایک فرض شناس ماں بھی ہیں۔

تقریب کے اختتام پر فضہ ذوالفقار نے راقم کے فلسفہ کہ ہر حق ایک ذمہ داری کو جنم دیتا ہے کہ متعلق سوال کیا کہ کیوں ہر طرف حقوق کو اجاگر کرنے کی تقریبات ہوتی ہیں مگر ذمہ داریوں کے تعیں کی بابت ایسی مجالس قائم نہ کی جاتی ہیں؟ تو اس پر راقم کا یہ خیال ہے کہ حق اس وقت تک کامل نہیں ہے جب تک اس کے ساتھ کہ ذمہ کو بطریق احن نہ نبھایا جائے۔ تو اگر صرف حق کو ہی پہچانا جائے اور ذمہ داری کو پس پشت ڈالا جائے تو جلد ہی حق دم توڑ دے گا۔ اس کی بہترین مثال اسلامی خاندانی نظام کی مضبوطی اور مغربی معاشرہ میں خاندانی نظام کی کمی ہے۔ اللہ کی بنائی حدود میں با اختیار خواتین نہ صرف اپنے حق کو انجوائے کرتی ہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو بھی پورا کرتی ہیں اس کی اعلی مثال جسٹس عائشہ اے ملک ہیں۔ جو نہ صرف ایک جج ہیں بلکہ ایک بہترین ماں بھی ہیں۔

لہذا اس امر کی ضرورت ہے کہ خواتین کے اس حق با اختیاری کو تسلیم کیا جائے، انہیں جہاں تک ممکن ہے سپورٹ کیا جائے مگر اس کے ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ خواتین اپنی با اختیاری کا غلط استعمال نہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں سے منہ نہ پھیریں۔ بلاشبہ ایک با اختیار خاتون بہت شاندار خاتون ہوتی ہے اگر وہ اپنے حقوق اور فائض میں تناسب قائم رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments