ماحولیاتی تباہی: وقت سے پہلے زمین زیادہ گرم ہو جائے گی


ہر گزرتے دن کے ساتھ عالمی سطح پر ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی بری خبر ضرور آ رہی ہے۔ اب اس میں تازہ ترین اضافہ یہ ہے کہ ایک نئی تحقیق میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے، یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ زمین کے ماحول کا زندگی کی بقاء کے لیے انتہائی حساس درجے تک گرم ہونے کا وقت جو پچھلی تحقیقات میں سنہ 2050 کے آس پاس بتایا جاتا تھا، زمین اس سے بہت پہلے ہی اس حد کو چھو لے گی۔ اور اس میں ماحولیاتی تباہی سے بچانے والے اقدامات اٹھانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

یہ تحقیق پیش گوئی کرتی ہے کہ اگلی ایک دہائی کے دوران زمین، صنعتی ترقی سے پہلے دور کے درجۂ حرارت سے ایک اشاریہ پانچ درجہ سینٹی گریڈ سے زیادہ گرم ہو جائے گی جس کے بارے میں پہلے پیش گوئی کی گئی تھی کہ ایسا سنہ 2050 کے لگ بھگ ہو جائے گا۔ جبکہ اس پیش گوئی کے مطابق زیادہ امکان ہے کہ ماحول کو گرم ہونے سے بچانے کے لیے تمام تر انسانی کاوشوں کے باوجود، زمین سنہ 2050 تک صنعتی ترقی سے پہلے کے دور کے مقابلے میں دو ڈگری سینٹی گریڈ تک گرم ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کی تحقیقات میں زمین کے اتنے گرم ہو جانے کے لیے سال 2060 سے سنہ 2065 یا اس سے بھی بعد کا عرصہ بیان کیا گیا تھا۔

موجودہ معلومات بھی یہ بتاتی ہیں کہ اس وقت زمین صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں ایک اشاریہ ایک تا ایک اعشاریہ دو سینٹی گریڈ زیادہ گرم ہو چکی ہے۔ بظاہر تو درجہ حرارت میں ایک یا دو ڈگری کا اضافہ بڑی بات معلوم نہیں ہوتا لیکن زمین کے مستقل درجہ حرارت میں اضافے سے اس سیارے پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری اور نفیس نظاموں پر انتہائی تباہ کن اثرات پڑیں گے۔

”ہماری تحقیق اس امر کی مزید تصدیق کرتی ہے کہ اگلی تین دہائیوں میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیا کچھ ہو گا۔“ یہ اس تحقیق کے خلاصے میں کہا گیا ہے جو جریدے ”دی پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسز“ میں شائع ہوئی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے سنہ 2015 ء کے پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ زمین کے درجہ حرارت کو دو ڈگری سے کم بلکہ ترجیحاً تو ایک اشاریہ پانچ ڈگری یا اس سے بھی کم پر محدود کر دیں گے۔

سائنس دانوں نے زمین کے درجۂ حرارت میں ایک اشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے کو اس آخری حد یا بند کے طور پر بیان کیا ہے کہ جس کے بعد تباہ کن سیلابوں، خشک سالی، جنگلات کی آگ اور قحط پڑنے کے امکانات ڈرامائی حد تک بڑھ جائیں گے۔

جبکہ اگر درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر بڑھ گیا تو وہ قیامت صغریٰ برپا کر دے گا جس سے ہونے والی تباہی ناقابل واپسی ہو گی۔ اور تین ارب سے زائد انسانوں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔

اس تحقیق کے لیے مصنوعی ذہانت کے نیوٹرل نیٹ ورک سے استفادہ کیا گیا۔ اس نظام میں سائنس دانوں نے کمپیوٹر کو ماحولیاتی تباہی کے موجود اشارے بمعہ ٹھوس معلومات اور مختلف عشروں میں زمین کے درجہ حرارت کی تفصیلات مہیا کیں جس کے جواب میں مصنوعی ذہانت نے یہ پیش گوئی کی۔

یہ تحقیق نوح ڈیفن باغ نے کی جو اس تحقیق کے شریک مصنف اور جامعہ سٹینفورڈ میں استاد ہیں۔

ڈیفن باغ اور ان کی شریک مصنفہ ایلزبتھ بارنس جو کہ کولاراڈو سٹیٹ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں، نے تین مختلف منظر ناموں کی تصویر کشی کی۔ یہ تین منظر نامے، ماحولیات میں کم تر درجے، درمیانہ درجے اور انتہائی حد درجہ پیمانے کی تبدیلیوں کی پیش گوئی کرنا تھی۔

تینوں منظر ناموں میں سائنسدانوں پر انکشاف ہوا کہ اگر آلودہ گیسوں کے اخراج میں ڈرامائی حد تک کمی کر بھی دی جائے تو بھی زمین کے درجہ حرارت میں ایک اشاریہ پانچ سینٹی گریڈ اضافہ سنہ 2033 تا 2035ء تک ہو جائے گا۔

ڈیفن باغ کہتے ہیں کہ ”انفرادی طور پر تو کئی سال پہلے ہی مختلف سالوں، مختلف مقامات پر ہمیں یہ اضافہ نظر آنا شروع ہو جائے گا“ لیکن ان کی توجہ اس بات کی پیش گوئی کرنے پر تھی کہ ”مجموعی طور پر زمین کے درجہ حرارت میں ایک اشاریہ پانچ ڈگری کا اضافہ کب تک ہو جائے گا۔“

یہ تحقیق، اس سے قبل کی جانے والی کچھ تحقیقات کی تائید کرتی ہے۔

سنہ 2022 میں اقوام متحدہ کے بین الحکومتی ماہرین برائے ماحولیاتی تبدیلی نے پیش گوئی کی تھی کہ زمین کے درجہ حرارت میں صنعتی دور کے مقابلے میں ایک اشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ سنہ 2030 ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں تک ہو جائے گا۔

لیکن یہ نئی تحقیق پچھلی تحقیقات سے اس بارے میں اختلاف رکھتی ہے کہ زمین کی حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ کب تک ہو جائے گا۔ مثلاً اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ماہرین برائے ماحولیاتی تبدیلی کی پیش گوئی تھی کہ رواں صدی کے اختتام تک زمین کے درجہ حرارت میں دو ڈگری کا اضافہ نہیں ہو سکے گا۔

لیکن مصنوعی ذہانت نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر اب سے لے کر اگلے پچاس سالوں تک مضر صحت گیسوں کے اخراج کو صفر تک محدود کر دیا جائے تو بھی اس بات کے تقریباً اسی (80) فیصد امکانات ہیں کہ سنہ 2065ء تک زمین کے درجہ حرارت میں صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں دو ڈگری کا اضافہ ہو جائے گا۔

اور ڈیفین باغ کے مطابق، اگر ماحول کو گرمانے والی گیسوں کا اخراج انتہائی شدید حد تک جاری رہا تو مصنوعی ذہانت کی پیش گوئی ہے کہ اس بات کے امکانات پچاس فیصد ہیں کہ سنہ 2050 سے پہلے پہلے زمین کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے گا۔

اس امر کے انتہائی معتبر شواہد موجود ہیں کہ زمین کے درجہ حرارت میں آدھا ڈگری کا اضافہ بھی لوگوں اور زمین کے حساس نظاموں کے لیے خاصے خطرے کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ جتنا زیادہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا، زمین پر زندگی کو بقاء کو بھی اتنے ہی شدید اور سنجیدہ نوعیت کے خطرات لاحق ہوتے جائیں گے۔ ڈیفن باغ زور دے کر کہتے ہیں۔

زیادہ تر حکومتی معاہدوں، اعلانات میں زمین کے درجہ حرارت کو ایک اشاریہ پانچ ڈگری سے نیچے ہی رکھنے کے وعدے کیے گئے ہیں لیکن ڈیفن باغ کہتے ہیں کہ ایک اشاریہ پانچ ڈگری تک کمی کا وقت کب کا گزر چکا ہے۔ اب تو اس بات کی جدوجہد کرنی چاہیے کہ یہ اضافہ دو ڈگری کا نہ ہو کیونکہ اب تک حکومتوں، عوام اور رہنماؤں کا ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ”ہنوز دلی دور است“ والا جو رویہ اور عملی اقدامات ہیں، ان سے تو لگتا ہے کہ یہ سیل رواں دو ڈگری اضافے کی حد سے بھی آگے گزر جائے گا۔

ڈیفن باغ کہتے ہیں کہ مستقبل میں ماحولیاتی گرمائش کے حوالے سے تحقیق اور پیش گویوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اضافہ ہو گا۔

”مصنوعی ذہانت ٹھوس اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی درستی سے یہ بتا سکتی ہے کہ زمین کے درجہ حرارت اور دیگر نظاموں پر کب، کتنا اثر پڑے گا۔“ ڈیفن باغ نے کہا۔

ماخذ:سی این این
https://edition.cnn.com/2023/01/30/world/global-warming-critical-threshold-climate-intl/index.html


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments