بوسنیا کی چشم دید کہانی


اب سٹولک میں اردو بولنے والوں کی تعداد چھ ہو گئی تھی۔ ادھر ایشور اپنے اندر کے کٹر ہندو پن کو چھپانے کی پوری کوشش کے باوجود کبھی کبھی ایسی بات ضرور کر جاتا تھا جو یا تو میرے لیے ناگوار ہوتی تھی یا پھر پریم کے لیے۔ اس کی اس طرح کی باتوں کا اقبال اور شیوا کوئی خاص نوٹس نہ لیتے تھے جب کہ مجھے اور پریم کو ایسی باتیں چبھتی تھیں۔

صاحب بھارتیوں کو پورب میں ہم جانتے ہیں اور پچھم میں آپ۔ ہم سے ان کا کیا چھپا ہوا ہے۔ ایشور کو یوں دیش وچاری بننے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ پریم مجھے اکثر کہتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہرحال ایشور کی طبیعت کا فتور بھی ٹھنڈا پڑتا گیا۔ وہ اب محتاط رہنے لگا۔ لیکن چونکہ عادت سے مجبور تھا، لہٰذا اب بھارت کی بڑائی کے قصے ہمارے سامنے بیان کرنے کے بجائے گوروں سے چھیڑ دیتا۔ وہ بھارتی ٹرک ٹاٹا کو نہ صرف تمام گوروں میں متعارف کروانے میں کامیاب ہو گیا تھا بلکہ میرا نے تو اسے خریدنے پر سنجیدگی سے غور بھی شروع کر دیا تھا۔ اقبال کا ٹاٹا ٹرک پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ اتنا ہی بے مثال ٹرک ہے تو پھر ہمیں بھارت سے باہر کیوں نظر نہیں آتا۔

تم نے بوسنیا کیا دیکھ لیا ہے، پوری دنیا دیکھنے کے دعویدار بن گئے ہو۔ تمہاری اطلاع کے لیے جرمنی میں ٹاٹا کی اس قدر مانگ ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک کو اس کی فراہمی ممکن ہی نہیں ہے۔ ایشور ترنت جواب دیتا

اگر یہ وہی ٹرک ہے جو میں تمہاری فلموں میں دیکھتا ہوں تو یہ ٹرک کے بجائے چھکڑا کہلانے کا زیادہ مستحق ہے اور جرمن یقینی طور پر اسے اپنے عجائب گھروں کی زینت بنانے کے لیے درآمد کرتے ہوں گے۔ اقبال بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتا۔

اقبال اور ایشور کے مابین اس نوک جھونک کے بعد ایشور اس موضوع کے حوالے سے بھی محتاط ہو گیا اب اس نے ہمارے سامنے ٹاٹا کے ذکر سے گریز کرنا شروع کر دیا۔

بہت دنوں بعد ایک دفعہ میں اور اقبال موسطار سے سٹولک واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ایک موڑ کاٹتے ہی ہمارے سامنے دو چھکڑے نمودار ہوئے جو بہ مشکل چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر اقبال کو ایک دفعہ پھر ٹاٹا کے ٹرک یاد آ گئے۔ اس نے اسٹیشن پہنچ کر پوری سنجیدگی طاری کرتے ہوئے ایشور سے کہا کہ آج اس نے اتفاق سے ٹا ٹا کے ٹرک دیکھ ہی لیے، وہ بھی موسطار جانے والی سڑک پر۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ یہاں کیسے پائے گئے۔

یہ ضرور جرمنی سے ریڈ کراس کا امدادی سامان لے کر آئے ہوں گے۔ ایشور نے کہا

تمہارا اندازہ درست ہے کیوں کہ طبی امداد کی فوری ترسیل کے لیے جرمنی کے پاس شاید اس سے بہتر وسائل بھی نہیں ہیں۔ اقبال نے مسکراتے ہوئے کہا

یہ لطیف خیالی تو ایشور کی سمجھ میں کیا آنا تھی بہر حال ایک عرصہ بعد یہ موقع ہاتھ آنے پر اس نے ٹا ٹا ٹرک کی صفات اور بین الاقوامی مقبولیت کو خوب نمک مرچ لگا کر بیان کیا۔

ادھر شیوا کی میکشی میں روز بہ روز کچھ اس انداز سے اضافہ ہو رہا تھا کہ ہر روز دن ڈھلنے سے لے کر نصف شب تک وہ اتنی پیتا کہ نہ ہاتھ کو جنبش رہتی تھی اور نہ آنکھوں میں دم۔ پہلے تو وہ اس حالت میں صرف گوروں کو گالیاں دیتا تھا، لیکن اب وہ پریم کے ساتھ دنگا فساد پر بھی اتر آتا تھا اور خوب غل غپاڑہ کیا کرتا تھا۔ پریم پہلے تو یہ سب کچھ برداشت کرتا رہا لیکن آخرکار اس نے ہمیں اور انڈین ساتھیوں کو اس بارے میں آگاہ کیا۔

اور ساتھ ہی اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا۔ ہم پریم کے اس فیصلے سے متفق نہ تھے۔ کیوں کہ ابھی تک سٹولک میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہ تھی کہ ایک ہی ملک کے دو افسران نے علیحدہ علیحدہ رہائش رکھی ہو۔ اس فیصلے کا ہم سب اردو بولنے والوں کے لیے ایک منفی تاثر کا باعث ہونا بھی یقینی امر تھا۔ پریم اس کی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑتا تھا اور کہتا تھا کہ اب مجھ میں مزید برداشت کا حوصلہ نہیں ہے۔ لیکن اس سے قبل کہ پریم وہ گھر چھوڑتا، شیوا نے ایک اور جگہ ڈھونڈ لی اور خود علیحدہ ہو گیا۔

جون 1997ء میں بوسنیا میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے تھے۔ یو این نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دستے جنھیں مارچ سے لے کر جون تک چلے جانا ہے ان کے قیام میں تین تین ماہ کے اضافے کے لیے متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کیا جائے۔ اس ضمن میں سوائے پاکستان کے تمام ممالک کی طرف سے مثبت جواب موصول ہوا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی جاتی تھی کہ پاکستانی دستے کے قیام میں توسیع کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ کرتے وقت ان افسران کو نظر انداز کیا گیا، جن کی واپسی مارچ میں تھی اور صرف ان افسران کے قیام میں توسیع کی درخواست کی گئی جن کی واپسی جون میں ہونا تھی۔

ایک رائے کے مطابق ایسا پہلے دستے میں موجود اس سینئر افسر کی وجہ سے کیا گیا تھا جن کے کمانڈر دستہ سے تعلقات کشیدہ رہتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ متاثر ہونے والے دوسرے افسران اپنے طور پر یہ معاملہ وزارت داخلہ کے علم میں لائے۔ یوں حکومت پاکستان نے توسیع کی میعاد کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ دوسری اطلاع یہ تھی کہ توسیع میعاد چونکہ حکومت پاکستان کی پالیسی کے خلاف تھی لہٰذا منفی جواب دیا گیا۔ میں ذاتی طور پر اپنے کمانڈر دستے کو جس حد تک جانتا تھا اس بنا پر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا تھا کہ انھوں نے اپنے اختیارات کے استعمال میں ذاتی پسند، نا پسند کا اثر قبول کیا ہو گا۔ لیکن بہت سے دوسرے ساتھیوں کی رائے ایسی نہ تھی۔

ادھر ہندوستانی اور نیپالی ساتھیوں کے قیام میں بھی تین تین ماہ کی توسیع ہو گئی تھی شیوا کے سوا سب اس فیصلے پر انتہائی خوش تھے۔ اسے اپنا ملک اور اپنی اکلوتی بیٹی بے حد یاد آتے تھے۔ یہاں آئے ہوئے اسے 8 ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چلا تھا لیکن نیپال سے اپنے ایک تعلق کو اس نے ابھی تک قائم رکھا تھا۔ یہ تعلق اس وقت کی صورت میں تھا جو اس کی گھڑی بتاتی تھی۔ اس نے اپنی گھڑی کے وقت کو آج تک مقامی وقت سے نہیں ملایا تھا۔ وہ اس پر نظر ڈال کر نیپال کی زندگی کے معمولات کو یاد کرتا اور کچھ اور ہی رنجیدہ ہو جاتا تھا

تیرے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری

اکتوبر ہی میں اقبال نے بھابھی کے ہم راہ جرمنی، ہالینڈ اور فرانس کے دورے کا پروگرام بنایا۔ یہ دورہ کوئی پندرہ دن پر محیط تھا۔ وہ ہر دورے پر جانے سے کئی دن پہلے سے مجھے ان اشیاء کے بارے میں وقتاً فوقتاً بتاتا رہتا تھا جو اس نے ساتھ لے جانا ہوتی تھیں۔ میرا ذمہ اسے وقت رخصت ان کی یاد دلانا ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں بھابھی اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں، جن کی طرف سے کچھ مزید چیزیں علیحدہ سے نوٹ کروائی جاتی تھیں۔

اب میں تو انھیں جاتے وقت وہی چیزیں یاد دلا سکتا تھا جن کی مجھے تاکید کی گئی ہو۔ ہوتا یہ تھا کہ اس ساری احتیاط کے باوجود وہ کوئی نہ کوئی چیز بھول جاتے تھے۔ جو چیز تقریباً ہر بار بھولی جاتی وہ چھتری ہوتی تھی۔ نتیجتاً اقبال کے ہر دورے سے واپسی پر اس کی خریداری میں ایک چھتری بھی شامل ہوتی تھی جو یورپ کے ناقابل اعتبار موسم کی وجہ سے اسے چار و ناچار خریدنا پڑتی تھی۔ وطن واپسی تک اس کے پاس پانچ چھ چھتریاں جمع ہو چکی تھیں اور اس نے دور کے ان رشتہ داروں کے ناموں کی فہرست بھی تیار کر لی تھی جنہیں اس نے یہ چھتریاں تحفے کے طور پر دینا تھیں۔

اس دفعہ بھی جب وہ واپس آیا تو اس کے ہم راہ ایک نئی چھتری بھی آئی لیکن جو بات میرے لیے حیران کن تھی وہ یہ کہ بھابھی اس کے ہم راہ نہ تھیں۔ یہ بڑی عجیب صورت حال تھی کیوں کہ ایسا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ انھیں ساتھ لانا بھول گیا ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بھابھی کدھر گئیں۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا خلجان دور کرنے کے لیے اس بارے کوئی سوال کرتا، اس نے خود ہی بتا دیا کہ دورے کے آخری مرحلے پر پیرس میں قیام کے دوران گھر رابطہ کرنے پر اطلاع ملی کہ بھابھی کی چھٹی میں محکمے نے توسیع نہیں کی۔ ساتھ ہی مقررہ وقت پر واپس نہ لوٹنے کی صورت میں محکمانہ کارروائی کا نوٹس بھی جاری کر دیا گیا۔ لہٰذا وہ پیرس ہی سے پاکستان پرواز کر گئیں۔

سہولت کے دن ختم ہوئے اور ہم پرانے معمول پر آ گئے۔ حسب سابق اقبال نے ہانڈی روٹی کا اور میں نے برتنوں کی صفائی کا انتظام سنبھال لیا۔ ٹی وی مع ڈش انٹینا جو اقبال کے کمرے میں تھا، ڈرائنگ روم میں منتقل ہو گیا۔ بدلتے موسم کے پیش نظر یہاں پڑے ہوئے بڑے صوفے پر کمبل ڈال دیا گیا۔ یہ صوفہ ٹی وی کے بالکل سامنے بچھا ہوا تھا۔ اب رات کو اس کا ایک کونا وہ سنبھال لیتا اور دوسرا میں۔ ٹی وی پر جب کوئی ایسا پروگرام نہ ہوتا جو دل چسپی کا باعث ہو تو اقبال کوئی قصہ چھیڑ دیتا۔

وہ اتنا ماہر قصہ گو تھا کہ محکمہ پولیس کے بجائے پشاور کا قصہ خوانی بازار اس کے لیے زیادہ موزوں جگہ تھی۔ قصہ گوئی میں ہمارے ایک اور ساتھی محمد ایوب جنھیں ہم پیار سے لالہ کہتے تھے، بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ان میں اور اقبال میں بس یہ فرق تھا کہ اقبال کے قصے جگ بیتی ہوتے تھے جب کہ لالہ کا کوئی بھی قصہ ایسا نہ ہوتا تھا جس میں مرکزی کردار ان کا اپنا نہ ہو۔ ایک ایسے ہی قصے کو سنتے ہوئے جب ہمارے ایک کولیگ نے کسی خاص دل چسپی کا مظاہرہ نہ کیا تھا تو لالہ ناراض ہو گئے اور غصہ میں کہا۔

Do you think that I am a story teller of Qissa Khawani?


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments