’فوجی میرے شوہر کو پوچھ گچھ کے لیے لے کر گئے، چار دن بعد اس کی لاش ملی‘


’میں 17 فروری 1994 کی وہ صبح کبھی نہیں بھولوں گی۔ میرے شوہر کے قتل کو 29 سال گزر چکے ہیں، لیکن وہ مناظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔‘

’صبح ساڑھے سات بجے کے قریب فوج کے پانچ اہلکار ہمارے گھر میں داخل ہوئے، ان میں سے ایک نے وردی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ وہ میرے شوہر کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئے کہ وہ پوچھ گچھ کرنے کے لیے لے جا رہے ہیں۔ ہمیں چار دن بعد ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔‘

یہ کہتے ہوئے 57 سالہ للیشوری مورن رونے لگتی ہیں۔

یہ کیس انڈیا کی ریاست آسام کے تینسوکیا ضلع کا ہے جہاں 29 سال قبل فوج کے ایک جعلی مقابلے میں پانچ نوجوانوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

17 فروری سے 19 فروری 1994 کے درمیان تنسوکیا میں چائے کے باغ کے ایک منیجر کے مبینہ قتل کے بعد، فوج کے اہلکاروں نے کل نو لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا تھا۔

لیکن 23 فروری 1994 کو پرابین سونووال، پردیپ دت، دبوجیت بسواس، اکھل سونووال اور بھوپین مورن کی لاشیں ڈبرو سائکھوا ریزرو جنگل سے برآمد ملی تھیں۔

یہ سبھی آسام کی ایک موثر طلبہ تنظیم آل آسام سٹوڈنٹس یونین سے وابستہ تھے۔ باقی چار افراد کو فوج نے رہا کر دیا۔

اس دوران چائے کے باغ کے منیجر کے قتل میں شدت پسند تنظیم الفا (یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام) کا نام بھی سامنے آیا۔ اس واقعے کے بعد فوج پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ان پانچوں افراد کا نام کالعدم تنظیم الفا سے جوڑا گیا ہے۔

’قاتلوں کو بھی سزا ملنی چاہیے‘

للیشوری مورن کی عمر صرف 26 سال تھی جب فوجی جوان بھوپین مورن کو گھر سے لے گئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اپنے شوہر کے قتل کے وقت میرے پانچ بچے تھے۔ بڑے بیٹے کی عمر 13 سال اور سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر ڈھائی سال تھی۔‘

’میں ان 29 سالوں میں بہت روئی۔ میں نے بچوں کی پرورش کی۔ بہت دکھ سہے۔‘

’غربت کی وجہ سے بچے زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے، گھر سیلاب میں ڈوب جاتے تھے لیکن کسی حکومت نے ہماری مدد نہیں کی۔‘

’میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر کو قتل کرنے والوں کو بھی کڑی سے کڑی سزا دی جائے لیکن عدالت نے اب حکومت سے کہا ہے کہ ہمیں معاوضہ دے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’فیصلے سے کچھ سکون ملا ہے کہ میرے شوہر اور وہ چار لوگ بے گناہ تھے۔ لیکن قاتلوں کو بھی سزا ملنی چاہیے تھی۔‘

اس واقعہ کے بارے میں، 1994 میں، متاثرہ افراد کے خاندانوں اور طالب علم لیڈر سے سیاستداں بننے والے جگدیش بھویاں نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں نوجوانوں کے بارے میں معلومات مانگی گئی تھیں۔

اس کے بعد عدالت کے حکم پر سینٹرل بیورو آف انویسٹیگیشن (سی بی آئی) نے 1995 میں تفتیش شروع کی جس کے بعد سی بی آئی نے عدالت میں داخل اپنی رپورٹ میں فوج کے سات اہلکاروں کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

2018 میں ان ہلاکتوں کے سلسلے میں ایک میجر جنرل سمیت سات فوجیوں کو کورٹ مارشل کے دوران عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

تاہم، 2019 میں ان کی اپیل پر غور کرتے ہوئے، فوج کی طرف سے مقرر کردہ خصوصی افسر نے کہا کہ فوجی اہلکار قصوروار نہیں تھے۔

’دوبارہ تفتیش کے بجائے کیس بند کرنا بہتر ہوگا‘

اس کے بعد متاثرہ خاندان ایک بار پھر گوہاٹی ہائی کورٹ گیا۔

گزشتہ جمعرات کو سماعت کے دوران، جسٹس اچنتیا مالا بجر باروہ نے کہا کہ تقریباً 30 سال پرانے کیس میں قتل کی نوعیت کا ایک بار پھر پتہ لگانے کی کوشش کرنے کے لیے عدالتی تحقیقات شروع کرنے کے بجائے، ’اس کیس کو بند کر دینا ہی بہتر ہے اور معاوضہ دینا بہتر ہو گا۔‘

اپنے حکم میں جسٹس بُجر بروہ نے کہا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرنے کے بجائے ہم اس موقف کو قبول کرتے ہیں کہ مذکورہ پانچ افراد کی موت ایک فوجی آپریشن کے دوران ہوئی تھی۔‘

حکم نامے میں جسٹس برواہ کا کہنا تھا کہ ’ہم فوج کے حکام کے ذریعے حکومت کو حکم دیتے ہیں کہ وہ پانچوں مرنے والوں کے اہل خانہ کو مناسب معاوضہ ادا کرے۔ مناسب سمجھا جاتا ہے کہ ہر ایک مرنے والے کے اہل خانہ کو ایک ماہ میں 20 لاکھ روپے کے دو معاوضے ادا کیے جائیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں ’چوروں کے گاؤں‘ کا وہ لٹیرا، جو امیروں سے مال لوٹ کر غریبوں میں تقسیم کرتا تھا

’جیل کی دنیا نے مجھے گینگسٹر بنایا‘: موسے والا کے قتل سمیت سنگین مقدمات میں مطلوب لارنس بشنوئی کون ہیں؟

’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ امرت پال سنگھ کون ہیں اور انڈیا کو دوبارہ اُبھرتی خالصتان تحریک سے کتنا خطرہ ہے؟

’دوبارہ کیس لڑنے کی ہمت نہیں تھی‘

اپنے چھوٹے بھائی کے قتل اور 29 سال تک جاری رہنے والے کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیپک دتہ کہتے ہیں ’میرے بھائی پردیپ کی شادی کو صرف ایک ماہ ہوا تھا جب فوج اسے لے گئی، اس کی عمر 31 سال تھی۔ وہ لوگ رات گئے ہمارے گھر آئے۔‘

’میں نے اپنے بھائی کا سراغ لگانے کے لیے درخواست دائر کی تھی لیکن 22 فروری کو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے۔‘

’اس کے پورے جسم پر کالے دھبے تھے۔ انگلیوں کے ناخن نکالے گئے تھے۔ ایک آنکھ پوری طرح سے مسل دی گئی تھی۔ یہ سب چیزیں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی تھیں، ہم نے 29 سال انصاف کے لیے جدوجہد کی، میرا بھائی بے گناہ ثابت ہوا، ان فوجیوں کو سزا ملنی چاہیے تھی۔‘

ایک سال قبل بینک کی نوکری سے ریٹائر ہونے والے دیپک دتہ کا کہنا ہے کہ 29 سال تک لڑنے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا ہے۔ ’اب اس معاملے میں دوبارہ لڑنے کی ہمت باقی نہیں رہی۔‘

فوج کی اس کارروائی میں اپنے بھائی دبوجیت کو کھونے والے دیبایش بسواس اس 29 سالہ قانونی جنگ کو اپنی زندگی کی سب سے تکلیف دہ لڑائی بتاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی متاثرہ خاندان کے لیے انصاف کے حصول کے لیے 29 سال کا طویل عرصہ گزارنا اس خاندان کے لیے ایک طرح کی بربادی ہے۔ میں نے اس کیس میں اپنا سارا وقت اپنے بھائی کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے صرف کیا۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔‘ انھوں نے گوہاٹی ہائی کورٹ اور حکومت سے درخواست کی کہ وہ عدالت کے مقرر کردہ وقت کے اندر تمام متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ ادا کرے۔

آسام جاتیہ پریشد کے جنرل سکریٹری جگدیش بھوئیاں نے کہا کہ 29 سال بعد آخرکار انصاف مل گیا ہے۔ ’کافی عرصے سے ان پانچوں متاثرہ خاندانوں نے اس جرم کی سزا کاٹی جو انھوں نے یا ان کے پیاروں نے کیا ہی نہیں تھا۔‘

آل آسام سٹوڈنٹس یونین نے ان پانچوں افراد کو اپنا تنظیمی شہید قرار دیا تھا اور ان کے نام پر یادگار بھی بنائی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments