اور الیکشن ملتوی ہو گئے
عین وہی کچھ ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ صوبائی جنرل الیکشن کے شیڈول کے جاری ہوتے ہی ہر بندہ خدشات کا اظہار کر رہا تھا کسی بھی سطح پر الیکشن مہم بھر پور طریقے سے شروع نہیں ہو سکی۔ جہاں دو چار سیاسی لوگ اکٹھے ہوتے تو سوال یہی ہوتا تھا کہ کیا الیکشن ہوں گے اور سب کا جواب کم وبیش یہی ہوتا کہ نہیں ہوں گے۔ اس جواب کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ نون لیگ کے امیدواروں نے پنجاب میں انتخابی مہم ہی شروع نہیں کی ان کو دیکھ کر یقین کامل تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے اور یوں الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول واپس لے کر 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا۔
یوں تحریک انصاف کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو کچھ مدت کے لیے بلا سر سے ٹل گئی جبکہ تحریک انصاف کے امیدواروں کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا کیونکہ وہ کپتان کی شہرت کے سہارے اسمبلی پہنچنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اب حکومت کی کوشش ہوگی کہ الیکشن اکتوبر میں ہی ہوں تاکہ وہ جون کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے کر الیکشن میں جانے کے لیے تیار ہو سکیں اور کپتان کی کوشش ہوگی کہ الیکشن جلدی ہوں تاکہ وہ مہنگائی سے ستائی عوام کی ہمدردیاں ووٹ کے ذریعے حاصل کرسکیں۔ لہذا ایک کشمکش شروع ہونے جا رہی ہے اور اس بار یہ جنگ عدلیہ میں لڑی جائے گی
اسی لیے تحریک انصاف الیکشن کے التوا کے معاملے پر عدلیہ میں جا رہی ہے کہ حکومت نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ دعویٰ وہ جماعت کر رہی ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں عدالتی احکامات کے باوجود بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے اور واضح طور پر آئین کی خلاف ورزی کی مگر اب تحریک انصاف کو لگتا ہے کہ عدالت سے ان کو ریلیف مل جائے گا اب دیکھتے ہیں کہ عدلیہ اس ضمن میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اکتوبر میں ہی الیکشن کی تاریخ کیوں دی گئی اس سے پہلے کی تاریخ کیوں نہیں دی گئی تو اس کے پیچھے شاید ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ستمبر میں دو اہم عہدے خالی ہونے والے ہیں سپریم کورٹ اور ایوان صدر میں تبدیلیاں ستمبر میں ہوں گی اور شاید اس لیے اکتوبر کے مہینے کا انتخاب کیا گیا۔
جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ الیکشن اکتوبر سے قبل نہیں ہوتے اور اس ضمن میں سیاسی بحران مزید بڑھتا جائے گا اور اگر تحریک انصاف اگر اپنے مزاحمتی بیانیے کو مزید پانچ ماہ تک اسی سطح پر سنبھال سکتی ہے تو الیکشن میں اس کو خاطر خواہ کامیابی ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ مگر موجودہ حالات میں تناظر میں اگر غور کیا جائے تو پانچ ماہ بہت وقت ہوتا ہے اس دوران بہت کچھ تبدیل ہوتا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر ایک بات کہ ان پانچ ماہ میں کپتان کے عدالتوں میں چلنے والے کیسز کا فیصلہ بھی ہو جائے گا اور سب جانتے ہیں کہ کپتان کو ان کیسز میں ریلیف ملنا مشکل ہے
اب آئندہ کی سیاسی صورتحال عدالتی فیصلوں سے مشروط ہے اگر عدالتیں 8 اکتوبر سے پہلے کی کوئی تاریخ دے دیتی ہیں تو حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا اور اگر عدالتیں بھی الیکشن کمیشن کے ساتھ اتفاق کرتی ہیں تو بلاشبہ یہ کپتان کے لیے بری خبر ہوگی۔ اب ملک بھر کی نظریں اعلیٰ عدلیہ کی طرف ہوں گی کہ ان کا کیا فیصلہ آتا ہے۔ رہی بات سیاست کی تو یہی ہلکی پھلکی موسیقی جاری رہے گی اور ہر کوئی اپنا راگ الاپنے کی کوشش کرے گا
سیاست خدا جانے کس رخ جائے تاہم آنے والی گرمیاں عوام کے لیے تباہ کن ہوں گی۔ مہنگائی سے ستائی ہوئی عوام کے لیے بجلی کے بل جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔ عوام کس طرح مہنگائی کے دوران بجلی کے بل ادا کرے گی یہ حکومت کے لیے سوچنے کی بات ہے۔ جبکہ یہاں حالات یہ ہے کہ گندم کی امدادی قیمت مقرر ہونے کے بعد عام مزدور کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ مفت آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگی عوام کہاں سے بجلی اور گیس کے بل دے پائے گی۔ کیا حکومت جون کے بجٹ میں عوام کی ریلیف کے لیے کچھ کرپائے گی کیا عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط میں کچھ نرمی ہوگی؟
برسراقتدار جو بھی ہو سوال یہ ہے کہ عام آدمی کو ریلیف کب ملے گا۔ پرانے پاکستان سے نئے پاکستان اور پھر سے پرانے پاکستان میں واپسی کے بعد بھی عام آدمی کی حالت بہتر نہیں ہوئی روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے کم ہوئے۔ مہنگائی میں اضافہ ہوا غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ نا تو نون لیگ کا پاکستان عوام کو راس آ رہا ہے اور نا ہی عمران خان کا پاکستان عوام کے لیے سود مند ثابت ہوا۔ حاکموں کے چہرے بدل جاتے ہیں ان کے معاشی حالات بدل جاتے ہیں اگر نہیں بدلتے تو عام آدمی کے حالات نہیں بدلتے ان کی مشکلات کم نہیں ہوتیں۔
ایک حقیقت ہے اس کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ملکی معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ عام آدمی کو ریلیف دے سکے۔ آمدن سے زائد اخراجات نے ملکی معاشی نظام کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے اور بلاشبہ ان حالات میں حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اپنا کوئی معاشی ایجنڈا نہیں ہے جو بھی برسراقتدار آتا ہے وہ صرف اور صرف عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے آتا ہے۔ کہیں اور فیصلہ ہوتا ہے کہ کون برسراقتدار آئے گا مگر عوام کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ منتخب کرتے ہیں۔ سمجھنے والی بات ہے کہ جو لوگ مفت آٹے کے حصول کے لیے سارا دن لائن میں لگے ہوتے ہیں کیا ان کو اتنا اختیار ہے کہ وہ ملک کے حاکم کا فیصلہ کرسکیں۔
کہتے ہیں ناں کہ دھوکہ ہمیشہ خوبصورت ہوتا ہے لہذا جمہوریت کے نام پر دھوکہ کھائے جا رہے ہیں اور ستم یہ کہ سب کچھ جاننے کے باوجود مزید دھوکے کے خواہش مند ہیں
- سرخ لائن عبور کرنے پر معافی نہیں ملا کرتی - 26/05/2023
- فیض صاحب کی بڑی بری خبر اور وطن عزیز - 20/05/2023
- کپتان کی رہائی اور پی ڈی ایم کا دھرنا - 13/05/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).