جموں و کشمیر میں رمضان کا آغاز پاکستان کے ساتھ: کشمیری حکام ’آزاد‘ رویتِ ہلال کمیٹی کیوں چاہتے ہیں؟


چاند
کیا پاکستان کی طرح انڈیا کے زیرانتظام کشمیرمیں بھی رویت ہلال کا عمل سیاست کا شکار ہو چکا ہے؟ اس کا اظہار ایک بار پھر گزشتہ بدھ کی شام کو ہوا جب سرکاری طور پر تعینات ’مفتی اعظم‘ ناصرالدین نے اعلان کیا کہ انہیں رمضان کا چاند نظر نہیں آیا اس لیے رمضان کا پہلا روزہ جمعہ کو ہوگا۔ لیکن چند گھنٹوں بعد جب پاکستانی رویت ہلال کمیٹی نے چاند نظر آنے کا اعلان کردیا تو نصف شب کشمیر کے لوگ تراویح کی نماز کے لیے جانے لگے اور گھروں میں دیر رات تک سحری کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔

پورے جموں کشمیر میں رمضان کا اغاز تو جمعرات کو ہی ہوا، لیکن اسی روز مزاروں اور خانقاہوں کی نگرانی کرنے والے ’وقف بورڈ‘ کی سربراہ اور بی جے پی کی سینئیر رہنما درخشاں اندرابی نے اعلان کیا کہ وہ جموں و کشمیر کے لیے ایک ’آزاد‘ رویتِ ہلال کمیٹی تشکیل دیں گی اور اس میں ریاست کے ہر خطے اور ہر فرقے کے نمائندہ علماء کے ساتھ ساتھ فلکیات اور موسمیات کے ماہرین بھی ہوں گے۔

’صرف مفتیوں کی شہادت نہیں چلے گی‘

درخشاں اندرابی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں بدھ کی شب سینکڑوں فون آئے اور لوگ اس کنفیوژن سے بہت پریشان تھے۔ ’اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی رویت ہلال کمیٹی تشکیل دیں گے جس کے لیے ہم کنٹرول روم بھی بنائیں گے اور جدید آلات نصب کریں گے۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ یہ کمیٹی نہایت جدید خطوط پر تشکیل دی جائے گی اور اس میں مسلمانوں کے تمام فرقوں کو نمائندگی دی جائے گی۔

انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کی سینئیر رہنما درخشاں اندرابی نے مزید بتایا کہ ’ ہم جدید دور میں صرف مفتیوں کی شہادت پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ ہم جدید آلات نصب کرنے کے بعد فلکیات اور موسمیات کے ماہرین کو بھی شامل کر رہے ہیں تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ یہ کمیٹی عیدالفطر سے قبل تشکیل دی جائے گی۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہوں، میں کشمیری ہی ہوں اور اپنی مٹی سے واقف ہوں۔ لیکن اس اعلان سے جو ردعمل مجھے ملا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ ہماری اپنی رویت ہلال کمیٹی ہو۔‘

درخشان اندرابی

درخشان اندرابی کہتی ہیں کہ ہم صرف مفتیوں کی شہادت پر بھروسہ نہیں کرسکتے

’ دوسرے دن چاند دیکھا تو لگا لوگوں نے درست فیصلہ کیا‘

سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی ترجمان سارہ حیات شاہ کہتی ہیں کہ انھیں اس نئے منصوبے پر کوئی اعتراض نہیں ہے ’لیکن اس کے لیے جدید ترین آلات اور اُن آلات کو استعمال کرنے کے اہل ماہرین کی ضرورت ہے۔ جب مفتی صاحب نے بُدھ کو کہا کہ چاند نظر نہیں آیا تو میں نے اُن پر یقین کیا، لیکن دوسرے دن جب پہلا روزہ تھا تو ہم نے چاند کا سائز بہت بڑا دیکھا۔ پھر مجھے لگا کہ مفتی صاحب سے غلطی ہوئی تھی اور لوگوں نے درست فیصلہ لیا۔‘

سارہ حیات کا اصرار تھا کہ اُن کی بات کو سیاسی بیان نہ سمجھا جائے۔ ’میں کسی جماعت کا موٴقف نہیں بتا رہی ہوں۔ میں ایک کشمیری مسلمان ہوں اور چاہتی ہوں کہ ایسے معاملات کسی سیاست کی نذر نہ ہوں۔‘

’چاند کے بارے میں پاکستان کی تقلید سیاسی نہیں شرعی مسئلہ ہے‘

سارہ حیات

سارہ حیات: میں چاہتی ہوں کہ ایسے معاملات کسی سیاست کی نذر نہ ہوں

موٴرخین کا کہنا ہے کہ برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد سے ہی انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں لوگوں نے رمضان اورعید کے چاند سے متعلق پاکستان کی ہی تقلید کی ہے۔

معروف موٴرخ اور محقق ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کشمیر پاکستانی جغرافیائی خطے کے بہت قریب ہے۔ اس بارے میں علماء یہ کہہ چکے ہیں کہ کسی خطے میں چاند دیکھنے کے لیے قریبی اور مناسب مطلع کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ پاکستانی خطہ ہمارے یہاں چاند کا مطلع رہا ہے۔ لہذا یہ کشمیریوں کا کسی ایک ملک کو دوسرے پر ترجیح دینے کا مسئلہ نہیں، یہ خالص مذہبی اور شرعی مسئلہ ہے، اس میں کسی کو چِڑ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ انڈیا جیسے بڑے ملک کے تمام خطوں میں رویت ہلال کے معاملے پر اکثر تنازعہ ہوتا ہے کیونکہ ’رویت ہلال کا مسئلہ تاریخ یا سیاست نہیں بلکہ جغرافیہ اور فلکیاتی نظام کا مسئلہ ہے۔

’ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ جنوبی ہند میں کبھی کبھی ایک دن پہلے یا ایک دن بعد عید منائی جاتی ہے۔ ہم جغرافیہ یا فلکیات کے مسئلے کو سیاست کے زاویے سے نہیں دیکھ سکتے۔‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر پورے انڈیا میں واحد خطہ ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ حکومت نے 1964 میں مختلف مذہبی امور میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے ’دارالافتاہ‘ نامی ادارہ قائم کیا تھا اور اس کے ناظم کے طور پر ایک عالم دین کو تعینات کیا گیا تھا جسے ’مفتی اعظم‘ کہا جاتا ہے۔

ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ یہ ادارہ دیگر مذہبی نزاعات کے بارے میں متحرک تو رہا لیکن رمضان اور عید کے چاند سے متعلق لوگوں نے ہمیشہ پاکستان کی تقلید کی ہے۔

’مجھے یاد ہے کہ اُس زمانے میں یہاں کے مشہور اخبار سرینگر ٹائمز میں کارٹون چھپتا تھا، جس میں دکھایا جاتا کہ مفتی اعظم کے ایک کان پر سرکاری نشریاتی ادارہ ریڈیو کشمیر ہے اور دوسرے کان پر ریڈیو پاکستان، جونہی ریڈیو پاکستان سے اعلان ہوتا تو وہ فوراً ریڈیو کشمیر پر کہتے کہ چاند نظر آگیا ہے۔‘

ظریف احمد

ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ فلکیات کے مسئلے کو سیاست کے زاویے سے نہیں دیکھا جا سکتا

اس تنازعے کی وجہ سے کشمیر میں دہائیوں سے رمضان اور عید سے قبل ابہام کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ظریف کہتے ہیں ’میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کشمیر میں تین تین عیدیں ہوئیں، کیونکہ کسی فرقے نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ جبکہ باقی سب پاکستانی رویت ہلال پر یقین کررہے تھے۔‘

پاکستان میں بھی رویت ہلال کا مسئلہ ملکی سیاست کا شکار ہوتا رہا ہے۔ اس بار بھی بُدھ کے روز غیرسرکاری رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ شہاب الدین پوپلزئی نے چاند کے شواہد سے انکار کیا تھا، تاہم سرکاری رویت ہلال کمیٹی نے اعلان کیا تو جمعرات کو ہی روزے شروع ہوگئے۔

اس حوالے سے ماضی میں خاصا تنازع ہوتا رہا ہے۔ جب پاکستان کے سابق وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے رویت ہلال کے عمل کو مذہبی شخصیات اور مفتیوں کی بالادستی سے آزاد کرانے کی بات کی تھی تو انھیں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا تھا جس میں ایک وفاقی رویت ہلال کمیٹی کی تشکیل کی تجویز تھی۔ اس بل کے مطابق تمام اضلاع کی مجوزہ کمیٹیاں وفاقی کمیٹی کے چیئیرمین کو رپورٹ کریں گی اور چیئرمین یا اُن کے نامزد نمائندے کے بغیر کسی نے چاند دیکھنے کا اعلان کیا تو اس پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments