کورونا وبا کا آغاز کہاں سے ہوا؟ کیا سائنس دانوں نے اس پہیلی کو حل کر لیا؟


چین
PA Media
سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے دعوی کیا ہے کہ ان کو کورونا وائرس کی انسان تک منتقلی کا اب تک کا بہترین ثبوت مل گیا ہے۔

صدی کی بدترین وبا کی سیاست زدہ اور پیچیدہ کھوج میں یہ ایک نیا موڑ ہے جس سے قبل ایسے متعدد متضاد نظریات سامنے آ چکے ہیں جن کو مکمل طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا۔

اس ضمن میں حالیہ تجزیے نے ایک جانور کی جانب اشارہ کیا ہے اور اس کی بنیاد ایسے شواہد ہیں جو تین سال قبل چین کے ووہان کی ایک جنگلی جانوروں کی مارکیٹ سے حاصل کیے گئے تھے۔

یاد رہے کہ یہی علاقہ کورونا کی وبا کے آغاز سے اس وائرس کا مرکز بنا رہا۔ سنہ 2020 میں جب کورونا ایک پراسرار بیماری تھی، چین کے سینٹر برائے ڈیزیز کنٹرول نے اس مارکیٹ سے کچھ سیمپل لیے تھے۔

ان نمونوں سے حاصل کردہ جینیاتی معلومات کو حال ہی میں عام کیا گیا جس کی مدد سے محققین کی ایک ٹیم نے یہ تحقیق کی اور ان کے خیال میں ریکون ڈوگز اس وائرس کے میزبان بنے جن سے یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہوئی۔

اس تجزیے کے مطابق ریکون ڈوگز کا ڈی این اے، جن کو اس مارکیٹ میں گوشت کے لیے فروخت کیا جا رہا تھا، انہی جگہوں پر پایا گیا جہاں سےکورونا وائرس کا مثبت ٹیسٹ نکلا۔

تاہم اس وبا کے آغاز کی تلاش میں اب بھی اس بات کا حتمی ثبوت موجود نہیں کیوں کہ اس مارکیٹ کو بند کیا جا چکا ہے اور وہاں موجود تمام جانور ہلاک کیے جا چکے ہیں۔

چین کی جانب سے اس اہم تحقیق کو جاری کرنے میں تین سال کی تاخیر کو سائنس دان ایک بڑا سکینڈل قرار دے رہے ہیں۔

یہ تحقیق ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی حکام اس نظریے پر یقین کرنا شروع ہو چکے ہیں کہ کورونا وائرس کسی لیبارٹری سے لیک ہوا۔

چینی حکومت نے ایسے دعوؤں کی سختی سے نفی کی ہے کہ کورونا وائرس کا جنم کسی سائنسی لیبارٹڑی میں ہوا تاہم امریکی ایجنسی ایف بی آئی اب اسے کافی حد تک درست سمجھتی ہے۔ امریکی محکمہ توانائی کا بھی ایسا ہی ماننا ہے۔

چین

متعدد امریکی محکمے اور ایجنسیاں اس راز پر تفتیش کر چکی ہیں اور یکم مارچ کو ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے بیجنگ پر الزام عائد کیا تھا کہ چین گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ ایف بی آئی کو لیبارٹری سے وبا لیک ہونے پر کافی عرصے سے یقین ہو چکا تھا۔

اب تک ایف بی آئی نے اپنی معلومات عام نہیں کیں جس کی وجہ سے سائنس دانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔

بی بی سی نے ایسے چند سائنس دانوں سے بات کی جو تین سال سے وبا کی ابتدا کا کھوج لگا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نئی تحقیق اس ضمن میں شاید اس سوال کا جواپ پانے کی سب سے بہتر کوشش ہے اور ان کا کہنا ہے کہ مغرب اور چین کی دوری کی وجہ سے اس پہلی کا حل تلاش کرنے میں مسئلہ ہو رہا ہے۔

نئی تحقیق کیا بتاتی ہے؟

ڈاکٹر فلورینس ڈیبیئر پیرس کے انسٹیٹیوٹ برائے ایکولوجی اور ماحولیاتی سائنسز میں سینئر محقق ہیں۔

انھوں نے ہی ان جینیاتی سویبس کا پتہ چلایا تھا۔ انھوں نے بی بی سی ورلڈ سروس کو بتایا کہ ان کو اس ڈیٹا کے بارے میں جاننے کا جنون ہو چکا تھا جب ان کو اس کی موجودگی کا پتہ چلا۔

جب انھوں نے ان کوڈز کو ایک جینیاتی ڈیٹا بیس، جس کو جی آئی ایس اے آئی ڈی کہا جاتا ہے، میں ڈاؤن لوڈ کر لیا تو انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ کھوج لگایا کہ یہ سیمپل کس جانور سے ملتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’نتائج ہمارے سامنے سکرین پر نمودار ہو رہے تھے اور ایک ہی نام آ رہا تھا، ریکون ڈوگ، ریکون ڈوگ۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’چلیں ہم نے اس جانور اور وائرس کو ایک ساتھ دیکھا لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ جانور بھی وبا سے متاثر تھے۔ تاہم ہم نے جو دیکھا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔‘

اسی تحقیق میں شامل ہونے والے ڈاکٹر ایڈی ہولمز کا کہنا ہے کہ وبا کے کسی جانور سے منتقل ہونے کا یہ اب تک کا بہترین ثبوت ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں وہ مخصوص جانور اب نہیں ملے گا جس سے یہ وائرس منتقل ہوا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بھی حیران کن ہے کہ ہم نے یہ ڈیٹا حاصل کیا اور یہ ہمیں صرف یہ نہیں بتا رہا کہ ایک مخصوص جانور وہاں موجود تھا بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ جانور اس مارکیٹ میں کہاں موجود تھے۔‘

سائنس دان کورونا کی ابتدا کا سراغ لگانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

نئے حاصل کردہ ڈیٹا کی مدد سے مذید تحقیق کی جا سکتی ہے تاہم یہ ایک پیچیدہ عمل ہو گا۔

روٹڑ ڈیم کی ایراسمس یونیورسٹی کی پروفیسر میریون کوپمینز عالمی ادارہ صحت کی اس تحقیقاتی ٹیم کا حصہ تھیں جو 2020 میں ووہان گئی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اب اس بات کا سراغ لگایا جا سکتا ہے کہ جن مخصوص سٹالز پر یہ جانور موجود تھے، وہاں ان کو فروخت کے لیے کہاں سے لایا گیا تھا۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ اگر یہ خرید و فروخت غیر قانونی طور پر ہو رہی تھی، تو اس کا سراغ لگانا مشکل ہو گا۔

تاہم جن فارمز سے یہ جانور لائے گئے، وہاں اب بھی بائیولوجیکل ثبوت موجود ہو سکتا ہے۔

اگر سائنس دان ایسے جانور تلاش کر سکیں جن کی اینٹی باڈیز سے علم ہو سکے کہ ان کو کورونا وائرس ہوا تھا تو اس سے مدد مل سکتی ہے۔

تاہم پروفیسر ہولمز کا کہنا ہے کہ کسی جانور میں وبا کا وائرس پایا جانا بہت مشکل ہو گا۔

کیا وبا کی ابتدا کی پہیلی حل ہو گئی؟

ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے۔

اس ثبوت کی تلاش سیاست زدہ ہو چکی ہے۔ ایک جانب جہاں اس نظریے کو وزن ملتا ہے کہ یہ وائرس جنگلی جانوروں سے شروع ہوا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا، وہیں ایک اور نظریہ ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی سے وائرس لیک ہونے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایف بی آئی کے بیان کے بعد اس نظریے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ہولمز نے ایک اور ایسی ہی تحقیق کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ اب ہم جانتے ہیں کہ وبا مارکیٹ کے پاس سے شروع ہوئِی جہاں یہ جانور موجود تھے۔

ان کا ماننا ہے کہ ’وبا لیبارٹری سے شروع نہیں ہوئی جو 30 کلومیٹر دور ہے اور ایسا ایک بھی ثبوت نہیں جو لیبارٹری کے پاس کسی ابتدائی کیس کی نشان دہی کرتا ہو۔‘

اس ڈیٹا کے سامنے آنے میں تاخیر کی وجہ سے بھی چین پر غصہ بڑھ رہا ہے۔

پروفیسر ہولمز کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا تین سال پرانا ہے۔ یہ ڈیٹا جنوری میں اس ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا جہاں سے ڈاکٹر فلورینس ڈیبیئر نے ان کا پتہ لگایا۔

تاہم جیسے ہی چینی محققین کو علم ہوا کہ دوسرے سائنس دان اس ڈیٹا کی اس ویب سائٹ پر موجودگی کے بارے میں جان چکے ہیں تو انھوں نے اسے ایک بار پھر چھپا دیا۔

17 مارچ کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر نے کہا تھا کہ ’ڈیٹا کا ہر ٹکڑا اہم ہے اور کورونا کی ابتدا سے جڑی ہر چیز عالمی برادری کو دینی چاہیے۔‘

ڈاکٹر ہولمز کا کہنا ہے کہ ’انسان کو یہ وبا جنگلی جانور سے لگی اور تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ خود کو اس جانور سے الگ کر لیں اور زیادہ محتاط ہوں کیوں کہ ایسا پھر ہو سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments