ڈسکورس/کلامیہ/ بیانیہ


”ڈسکورس وہ لسانی قوت ہے جو بیانیہ کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے اور بیانیہ کو مکمل کرتی ہے۔“

کلامیہ، کلام سے مشتق ہے جس کے معنی گفتگو کرنا، بات چیت کرنا، اپنی خواہشات کا اظہار کرنا وغیرہ وغیرہ۔ کلام دو طرح کے ہوتے ہیں کلام موزوں اور کلام ناقص، کلام موزوں ایسا کلام جسے سن کر یا پڑھ کر کوئی بات اچھے سے سمجھ میں آ جائے۔ بالفاظ دیگر کلامیہ سے مراد ایسا موزوں کلام ہے جسے سن کر کوئی بات سمجھ میں آ جائے اور اس پر عمل کیا جا سکے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی کلام جب سنا جاتا ہے تو اس کا اثر ذہن پر تادیر رہتا ہے۔

ڈسکورس ایک جدید لسانی اصطلاح ہے جو کہ الفاظ کے سلسلہ بہ سلسلہ جڑے ہونے اور ان سے معانی اخذ کرنے پر عبارت ہے۔ گویا لسانیات ایک سمندر کی طرح ہے جس میں لہریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ سمندر کی طغیانی عام دنوں میں مختلف جبکہ مدوجزر کے دنوں میں مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح کوئی بیانیہ یا ڈسکورس بھی لسانی سمندر میں ایک لہر کی مانند ہے جو عام حالات میں کچھ معانی دیتا ہے اور خاص حالات میں کچھ۔ ڈسکورس یا کلامیہ کسی فقرے کی ساخت اور من جملہ اجزا کو زیر بحث نہیں لاتا بلکہ یہ ایسا لسانی تفاعل ہے جو فقرے کی بناوٹ سے زیادہ معنویت پر انحصار کرتا ہے۔ معنویت ہی کسی بھی کلامیے یا بیانیے کے انسانی ذہنوں میں تادیر اثر پذیری کا عنصر رکھتی ہے۔ کسی بھی جملے کی معنویت کا انحصار اس کے ابلاغی زور پر ہوتا ہے۔ جتنا کوئی جملہ معنوی لحاظ سے مضبوط ہو گا اتنا ہی اس کا ابلاغ زور دار اور اثر پذیر ہو گا۔

کلامیہ یا ڈسکورس عام فہم اور سادہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ جملے کی ابلاغی قوت اور اثر پذیری سے منسلک ہوتا ہے اس لیے کلامیہ یا بیانیہ میں کہیں نا کہیں ایسا عنصر چھپا ہوتا ہے جس میں سیاست کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔ فی زمانہ سیاست سادہ لفظوں میں اردو کے ایسے محاورے کی مانند ہے جسے بچہ بچہ جانتا اور اپنے جملوں میں استعمال کرتا ہے ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور“ گویا سیاست دان بھی کسی ملک کی عوام کو دائیں دکھا کر بائیں کا استعمال کر جاتے ہیں۔

اسی طرح بیانیہ یا کلامیہ بھی ایسے ابلاغی زور پر سفر کرتا ہے جس میں حاکم وقت یا سیاست دان یا مصنف یا بیانیہ جاری کرنے والا غرض کوئی بھی ہو، ایسا طریقہ ابلاغ اختیار کرتا ہے جس کا اثر تو عوام پر تادیر رہے مگر اس کے پیچھے ایک خفیہ ایجنڈا بھی کارفرما ہو۔ کلامیہ چوں کہ ابلاغی قوت رکھتا اور اثر پذیر ہوتا ہے اس لیے کسی بھی بیانیے یا کلامیے کے ذریعے کسی شریف آدمی کو شیطان صفت کہلوایا جا سکتا ہے۔ کلامیے کے ذریعے کسی کے حقوق سلب کیے جا سکتے ہیں۔

کسی کو برتر اور کسی کو ادنی قرار دیا جا سکتا ہے مگر یاد رہے کہ یہ سب کھلم کھلا نہیں ہو سکتا کیونکہ کلامیہ ایسا بیانیہ ہوتا ہے جس کے پیچھے ایک ایجنڈا چھپا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کالونیکل نظام میں یہ بیانیہ مشہور ہوا کہ برصغیر کی عوام ثقافتی و علمی پسماندگی کا شکار ہیں اور آباد کار عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ثقافتی اور علمی استعداد کو بڑھانے کے لیے تعلیمی پالیسی کے ذریعے عوام میں شعور پیدا کریں گے۔

یہ دراصل ایسا بیانیہ تھا جس کے پیچھے مغرب کی سیاسی و ثقافتی چال تھی اور مغرب کالونیکل نظام میں ایسا تعلیمی و ثقافتی نظام وضع کرنا چاہتا تھا جس کے ذریعے نو آبادیاں صدیوں تک غلامی کا شکار رہیں۔ اس بیانیے کی تکمیل کے لیے طاقت کے مختلف انداز اختیار کیے گئے اور بالآخر آباد کار اس میں ایسے کامیاب ہوئے کہ برصغیر کی عوام آج تک ذہنی غلامی سے آزادی حاصل نہیں کر سکی۔ یہ سب بیانیے یا کلامیے کے زور ابلاغ ہونے سے ہوا۔

انتقادی نقطہ نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ کلامیہ معاشرے کو کسی سانچے میں ڈھال سکتا ہے۔ کلامیے کے ذریعے آپ جھوٹ کو بھی سچ ثابت کر سکتے ہیں ( جیسا کہ نو آبادیاتی نظام میں ہوا) ۔ معاشرہ اگر کلامیے کے ذریعے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے تو کلامیہ بھی معاشرے کو جس ڈھب پر چاہے لگا سکتا ہے۔ مثلاً ہمارے معاشرے میں کئی ایک کلامیے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے کلامیے ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ معصوم عوام کو اپنے نرغے میں پھنسا لیتے ہیں۔

کچھ کلامیے معاشرے میں اپنی ساکھ بٹھانے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ ایک کلامیہ اسلامو فوبیا کا ہے، ایک کلامیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہے ایک کلامیہ پاکستان کے سارے سیاستدان کرپٹ ہیں کا ہے۔ الغرض کلامیے لسانی سمندر میں اونچی نیچی لہروں کی صورت اٹھتے اور بیٹھتے رہتے ہیں۔ جس کلامیے کی اونچائی اس کے زور ابلاغ اور اثر پذیری کی بدولت جتنی بلند ہو گی وہ اتنا ہی زود مند ثابت ہو گا۔

کلامیے معاشرے کی تشکیل آوری میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ معاشرے میں موجود افراد اپنی اپنی پسند کے کلامیے کی تقلید میں اپنی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔ کلامیے کے ذریعے لوگوں کے اذہان تبدیل کیے جاتے ہیں اور صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کیا جاتا ہے۔ فی زمانہ میڈیا اس کے لیے ایک بہترین کھلاڑی کا کام کرتا ہے۔ میڈیا پر صنعت کار اپنی تشہیر میں ایک کلامیہ یا بیانیہ جاری کرتے ہیں جس کی بدولت ان کی اشیاء ناقص ہونے کے باوجود اچھا زر مبادلہ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments