زمان پارک کا پائیڈ پائپر


پچھلی ایک دہائی میں ملکی سیاسی افق پر رونما ہونے والے ایک رجحان پر اکثر حیرت ہوتی رہی۔ اس رجحان، اس فینامینن کا نام ہے عمران خان۔

سیاسی یا نظریاتی بنیاد پر پسندیدگی یا مخالفت اپنی جگہ، لیکن کسی سیاسی رہنما کی مقبولیت کوئی حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ البتہ خان صاحب کے معاملے میں اس حیرت کی وجہ سیاسی یا نظریاتی اختلاف نہیں تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کے فالوورز میں معاشرے کا وہ طبقہ شامل تھا جو ماضی میں عمومی طور پر ملکی سیاسیات سے لاتعلق ہی نہیں رہا کرتا تھا، بلکہ اسے کافی حد تک حقارت کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا تھا۔ لیکن یہ طبقہ خان صاحب کی وجہ سے نہ صرف ووٹ ڈالنے نکلا، بلکہ عملی سیاست میں بھی اترا۔

مزید حیرت اس حد سے گزرے ہوئے جنون، وارفتگی اور عقیدت پربھی ہوتی رہی جو خان صاحب کے سیاسی حامی ان سے رکھتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن خان صاحب کے فالوورز ان کی حمایت ایک سیاسی رہنما کی طرح نہیں کرتے بلکہ ایک روحانی پیشوا کی طرح ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اس عقیدت میں نہ ان کی طرف سے 2011 کے بعد سے الیکٹیبلز کی قبولیت نے کوئی دراڑ ڈالی، نہ ان کے دور اقتدار میں ان کی غیر متاثر کن کارکردگی اس کی راہ میں حائل ہوئی اور نہ ہی اقتدار سے محرومی کے بعد ان کے اور ان کے قریبی رفقا کی مالی بے ضابطگیوں کے الزامات اس عقیدت کا کچھ بگاڑ سکے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد پورے ملک پر خان صاحب ایک فسوں کی طرح چھائے ہوئے ہیں۔ ان کے عقیدت مند تو ایک طرف، ان کے مخالفین بھی اس سحر سے آزاد نہیں۔ کسی کو پسند ہو یا نہ ہو، پچھلے ایک سال میں کس دن ملک میں پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر کیا ٹرینڈ چلے گا، کیا خبر گردش کرے گی، کون سا موضوع ٹاک شوز کی زینت بنے گا، اس کا فیصلہ خان صاحب کی صوابدید پر ہے۔ ان کے حامی ہی نہیں ان کے مخالفین بھی اس صوابدید سے ہٹ کر کچھ نہیں کر سکتے۔

یہ حیرت نا جانے کب تک باقی رہتی کہ ایک پرانی حیرت یاد آنے سے گتھی کچھ سلجھ گئی۔

یو ٹیوب پر مرحوم پی ٹی وی کے دور کا ایک ڈرامہ دیکھتے ہوئے بچپن کا ایک مقبول اشتہار یاد آ گیا۔ ایک بسکٹ کی اشتہاری مہم کے ذریعے مجھ جیسے کارپوریشن کے اردو میڈیم سکول سے پڑھے ہوئے طالب علم کا پائیڈ پائپر کے لفظ سے پہلا تعارف سے ہوا۔ فطری طور پر میں پائیڈ پائپر کو بچوں کا کوئی ہر دلعزیز کردار سمجھنے لگا، جو باجا بجاتا، ہنستا مسکراتا، ناچتا گاتا، بچوں کو بسکٹ کھلانے لے جاتا ہے۔

برسوں بعد انگریزی پڑھ لکھ جانے اور میریم ویبسٹر ڈکشنری میں پائیڈ پائپر کی تعریف دیکھ لینے کے بعد میں حیران ہوا کرتا تھا کہ آخر ایک کھوکھلے دعوے کرنے والے کردار کو کیونکر ایک بسکٹ بنانے والی کمپنی اپنی اشتہاری مہم کا مرکزی کردار بنانے پر رضا مند ہوئی۔ ناصرف کمپنی اس پر رضامند ہوئی بلکہ یہ مہم انتہائی کامیاب بھی رہی۔

تو سمجھ میں یہ آیا کہ کسی رجحان کی مقبولیت اس کے محاسن و عواقب پر منحصر نہیں ہوتی۔ ہیملن کی بستی کے بچے پائیڈ پائپر کے باجے کی دھن سے مسحور تھے یا اس کے چوہے بھگانے کے کارنامے سے متاثر، یہ بات کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ اسی طرح آج کا مدہوش ہجوم خان صاحب کے ورلڈ کپ کی جیت سے متاثر ہے (جس میں خان صاحب کی ذاتی پرفارمنس کھیل کے دونوں شعبوں میں ٹاپ 10 کیٹیگری میں کہیں نہیں تھی) یا آج ان کے مبینہ ”حقیقی“ آزادی کے نعرے سے، یہ اب بے معنیٰ ہے۔ ان کو تو اس سے بھی غرض نہیں کہ کل کا سب سے بڑا ڈاکو آج ان کی پارٹی کا صدر ہے۔

یہ سحر کبھی ختم ہو گا یا نہیں، اور اگر ہو گا تو اس کا شکار ہجوم اس وقت کس ذہنی اور نفسیاتی تباہی کا شکار ہو چکے ہوں گے، سوچ کر خوف آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments