عدلیہ سے متعلق قانون سازی


ہمارے ہاں اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت اسی وقت سے جاری ہے جب سے یہ ملک وجود میں آیا ہے۔ حالانکہ ملکی آئین میں ریاستی ڈھانچے کے خد و خال اور ریاستی ستونوں کے افعال و دائرہ کار کی بابت ہر ممکن حد بندی کی گئی ہے۔ بلا شبہ تمام ریاستی اداروں کی اپنی جگہ پر اہمیت مسلمہ ہے۔ کوئی بھی ادارہ اپنی افادیت کے لحاظ سے دوسرے ادارے سے کمتر ہرگز نہیں۔ اسی طرح ریاستی امور کو درست طور انجام دینے کے لیے تمام اداروں کا مکمل فعال ہونا لازمی امر ہے۔

کسی ایک ادارے کو اگر غیر فعال کر دیا جائے تو اس کا اثر مکمل ریاستی مشنری پر پڑتا ہے اور تمام کاروبار مملکت مفلوج ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بد قسمتی سے مگر ہمارے ادارے اکثر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے ساتھ دیگر اداروں کو مداخلت کے ذریعے غیر فعال کرنے کی کوشش میں بھی رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے پچھلی پون صدی سے مسلسل سفر کرنے باوجود بطور ریاست ہم ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ ہمارے ساتھ وجود میں آنے والی خطے کی دیگر ریاستیں ترقی میں ہم سے بلا مبالغہ سو سال آگے پہنچ چکی ہیں کیونکہ وہاں کوئی ادارہ اپنے تفویض کیے گئے دائرے سے باہر قدم کبھی نہیں نکالتا۔ اسی وجہ سے وہاں نظام مملکت کامیابی سے چل رہا ہے اور وہ ریاستیں دن بہ دن ترقی کر رہی ہیں۔

ہمارے آئین کے مطابق پارلیمنٹ ریاست کا سب سے بالادست ادارہ ہے اور دیگر تمام ادارے اس کے ماتحت ہیں۔ مگر حقیقت میں پارلیمنٹ ہی اس ملک میں سب سے کمزور اور بے توقیر ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ دیگر اداروں یعنی عدلیہ اور فوج کے بارے میں اس ملک میں بات کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہاں جس کا بس چلتا ہے وہ اٹھتا ہے اور آئینی لحاظ سے اس سپریم ادارے کو جی بھر کے گالیاں سنا دیتا ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پارلیمنٹ کی اس بے توقیری کی وجہ خود اس کے نمائندے رہے ہیں۔

ماضی میں جب بھی اس ادارے کی آزادی کو سلب کیا گیا ہر مرتبہ اسی پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں میں سے ایک بڑا طبقہ رہزنوں کے شانہ بشانہ کھڑا تھا۔ جب بھی کسی ڈکٹیٹر نے پارلیمنٹ پر شب خون مارا اس ڈکٹیٹر کو خط لکھ کر بلانے اور اس مذموم مقصد پر راضی کرنے کے لیے رات کی تاریکی میں ملاقاتیں کرنے والے اسی پارلیمنٹ کی نمائندگی کے دعویدار ہی تھے۔ اراکین پارلیمنٹ کے بلاوے پر جب کوئی ڈکٹیٹر آ جاتا تو پھر اسے دس دس سال تک خلعت جواز بھی اسی ادارے کی جانب سے پہنایا جاتا رہا ہے۔ اپنے زیر نگین ادارے کے ملازم سے حلف اٹھانے اور اسے ریاست کے سب سے بڑے منصب پر بٹھانے کا کارنامہ بھی تا قیامت اسی ادارے کے ماتھے پر جھومر بن کر جگمگاتا رہے گا۔

یہ سب گناہ کرنے اور پھر اپنے ہاتھوں اپنے پر کترنے کے لیے ڈکٹیٹروں اور دیگر قوتوں کو ”ٹول“ فراہم کرنے کے بعد بے توقیری اور بے اختیاری کا رونا پارلیمنٹ کے نمائندے تو رو رہے ہیں۔ لیکن انہیں شاید یہ یاد نہیں رہا کہ ماضی میں پارلیمنٹ تحلیل کرنے والی شق 58۔ 2 b کو جب اٹھارہویں ترمیم میں ختم کیا جا رہا تھا تو اس وقت 62، 63 کے خاتمے کی بات بھی ہوئی تھی۔ اس وقت اس متنازعہ شق کا آئین سے اخراج پارلیمنٹ کے نمائندوں کی نا اتفاقی کے سبب ہی نہیں ہو سکا تھا۔

اس کے علاوہ آج کل آرٹیکل 184 ( 3 ) کے تحت عدلیہ کی جانب سے لیے جانے والے ازخود نوٹسز پر بھی واویلا سننے میں آ رہا ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ اس حوالے سے اب خود عدلیہ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دو روز قبل جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ”پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجرا میں تاخیر“ کے تنازع سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال کے ازخود نوٹس کو 27 صفحات کے اختلافی فیصلے کے ذریعے مسترد کر دیا تھا۔

اور اب گزشتہ رات ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے حافظ قرآن امیدواروں کو اضافی نمبرز دیے جانے کے کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس امین الدین کے تین دو سے اکثریتی فیصلے نے اس حوالے سے ہوئی قانون سازی کی اہمیت پر مہر ثبت کر دی ہے۔ اس کے علاوہ ججز کے کنڈکٹ اور فیصلوں پر تنقید سے متعلق قاضی فائز عیسی کے ریمارکس بھی بہت زبردست تھے۔ عدلیہ کے متعلق اگر قانون سازی ہو رہی ہے تو میرے خیال میں توہین عدالت کے قانون پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت بڑا بلیک میلنگ کا ہتھیار بن چکا ہے۔

عوامی نمائندوں سے بھی مگر یہ سوال ہونا چاہیے کہ اگر یہ عدالتی اختیار کسی کے اختیارات میں مداخلت ہے تو اسے آئین سے نکالنے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ کے ہاتھ اب تک کس نے باندھ رکھے تھے؟ یہاں پر میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میں پارلیمنٹ کی سپر میسی کا قائل ہوں اور گزشتہ کئی سالوں سے نظر آنے والے ”جوڈیشل ایکٹو ازم“ پر مجھے بھی تحفظات ہیں۔ لیکن نہایت افسوس سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ اگر عوامی نمائندے عوام پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے ماتحت اداروں کے سربراہان کی خوشنودی اور مدت ملازمت میں توسیع کے لیے ریکارڈ عجلت میں قانون سازی کریں گے تو لازما طاقت کا خلا پیدا ہو گا۔

جب کسی ایک اسٹیک ہولڈر کی کمزوری سے ویکیوم پیدا ہوتا ہے تو فطری بات ہے کہ اس ویکیوم کو کوئی دوسرا پورا کرے گا۔ اگر پارلیمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ اس کے اختیارات میں مداخلت ہو رہی ہے تو وہ قانون سازی کے ذریعے ایسے تمام چور رستے جہاں سے اس کے دائرہ کار میں نقب لگانا ممکن ہوتا ہے بند کر دے۔ اور جہاں تک ازخود نوٹسز کی بات ہے بیشتر ازخود اسی وجہ سے مقبول ہوتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ عوام کو سہولیات زندگی کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ صرف اشرافیہ کے مفادات کی نگہبانی کے بجائے عوام کی فلاح میں سوچ بچار پر بھی کچھ وقت صرف کر لیا کرے تو اسے ان حالات کا کبھی سامنا نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments