منزل کی طرف دوگام چلو


ناقابل تسخیر وہ نہیں ہوتا جس کے پاس ایٹم بم ہوتے ہیں، بلکہ وہ ملک ناقابل تسخیر قرار پاتا ہے جس کے پاس متحد قوم ہو۔ قومیں صرف اسی صورت میں متحد ہوتی ہیں جب ان کی منزل ایک ہو، اخلاقیات مشترک ہوں، مقصد واضح ہو اور انہیں لیڈ کرنے والا غیر متزلزل کردار کا حامل ہو۔ جب بادشاہ کو سلطنت بچانے کے لیے امراء کے ساتھ ہر دوسرے معاملے پر کمپرومائز کرنا پڑے اور غریب عوام ہر معاملے میں بے بس اور لاچار ہوں تو وہ نہ تو لیڈر بن سکتا ہے اور نہ ہی قوم بنا سکتا ہے۔

ملکی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی اور معیشت کی اہمیت اپنی جگہ، مگر متحد قوم کی موجودگی ریاست کے لیے انجن کی مانند ہوتی ہے جو اگر درست حالت میں ہو تو مشکل ترین سفر بھی طے ہو جاتا ہے اور کمزور ہو تو دو فرلانگ کا فاصلہ بھی کبھی ختم نہیں ہو پاتا اور یہی ہمارے ساتھ ہوا کہ نام نہاد جمہوریت تو ہمیں مزید تقسیم در تقسیم کرتی چلی گئی اور آج ہمارے پاس سوائے الزام تراشیوں اور کھوکھلے نعروں کے کچھ نہیں۔ اس بکھری عوام کو کسی نقطے پر لانے کے لئے ہمارے باشعور اور مدبر لوگ اب خاصے متفکر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بڑا طبقہ اب اس صورتحال سے متنفر نظر آتا ہے اور اس صورتحال سے انخلاء کی کسی راہ کا متلاشی ہے۔ جب ہم دنیا کی تاریخ اور اپنے آس پاس ممالک کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں دو بڑی اہم چیزیں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ہیں تعلیم اور بلا تفریق پولیٹیکل موبیلٹی۔

جہاں بھی ترقی ہوئی ہے، اعلیٰ تعلیم کی برکت سے ہی ہوئی ہے۔ صنعتی انقلاب سب سے پہلے انگلستان میں آیا۔ برطانیہ تعلیم کے میدان میں صدیوں تک صف اول میں رہا۔ جاپان کا مائجی (Meiji) انقلاب کیونکر آیا۔ اس نوجوان شہنشاہ نے رعایا کے سامنے ایک حلف اٹھایا تھا جس میں یہ عہد شامل تھا : ”دنیا بھر سے علم حاصل کیا جائے گا تاکہ سلطنت کی بھلائی اور بہبود میں اضافہ کیا جائے۔ “ پھر ساری قوم کمر کس کے تعلیم کے حصول میں لگ گئی۔ نونہالوں کو کتابوں کی دنیا میں پروان چڑھایا گیا۔ سائنس، ادب اور ٹیکنالوجی لازمی مضمون تھے اور ساتھ ہی سماجی اقدار اور اخلاقیات کو نصاب میں شامل کر دیا گیا۔ ٹیکنالوجی میں وہ مہارت حاصل کی گئی اور قدرتی وسائل کے نہ ہوتے ہوئے بھی صنعتی میدان میں سب کو مات دے ڈالی۔

فرانس کے نظام تعلیم کی نمایاں خصوصیت وہاں کے عظیم سکول ہیں جن میں داخلہ قومی سطح پر منعقد ہونے والے مقابلہ کے امتحان کے ذریعہ ہوتا ہے۔ جو خوش قسمت داخل ہو جاتے ہیں انہیں تین سے پانچ سال تک وہاں خوب رگیدا جاتا ہے۔ کامیاب ہو کر جو نکلتے ہیں وہ ایسے گوہر تابدار ہوتے ہیں جنہیں بے شمار ادارے ماتھے کا جھومر بنانے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں۔

اب پولیٹیکل موبیلٹی کی اہمیت کو سمجھنا ہو تو ان ممالک کو دیکھیں جہاں رنگ، نسل اور خاندانی وابستگی کی تمیز کے بغیر کوئی بھی شہری اس ملک کا سربراہ بن سکتا ہو، یہ امید اور یقین لوگوں کے لیے محنت کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ اس بات سے قوم پرستی اور نسلی تعصب کم ہوتا ہے اور حب الوطنی کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔ رومیوں نے اپنے عروج کے دور میں افریقہ اور اسپین سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ایمپرر بنائے رکھا کیونکہ وہ میرٹ پر پورا اترتے تھے۔

اس کے بر عکس جنوبی افریقہ نے ایک طویل عرصے تک سیاہ فام شہریوں پر کئی اقسام کی پابندیاں لگائے رکھیں جس سے قومی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جب کسی قوم میں میرٹ کی بنیاد پر سربراہ چننے کا رواج ختم ہو جائے تو وہاں سیاسی ترقی رک جاتی ہے۔ منگولوں کے پاس کوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی مگر انہوں نے آدھی دنیا پر حکمرانی کی۔ صرف اس وجہ سے کہ ان میں ایکا تھا، اتحاد تھا۔

تاریخ کے حقائق مسخ کر کے ان کو نصابی کتب کا حصہ بنا دینے سے سادہ اذہان کو ڈسٹ بن تو بنایا جا سکتا ہے مگر ان میں تخلیقی سوچ پیدا نہیں کی جا سکتی، بلند آواز میں نعرے لگانے سے اپنے لوگوں کو دھوکہ تو دیا جا سکتا ہے مگر حقیقی ترقی کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں۔

مشرقی ساحل پر امریکہ کے شمالی کونے میں بوسٹن شہر آباد ہے۔ دور حاضر کی دو عظیم درس گاہیں ہارورڈ اور ایم آئینی یہاں واقع ہیں۔ ہارورڈ ’میں سائنس، عمرانیات، ادب اور روایتی مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی کے میدان میں حرف آخر ہے۔ یہاں ذہنوں کو روشنی اور جلا عطا ہوتی ہے جو انہیں کندن بنا دیتی ہے۔ یہاں سے اعلیٰ درجوں میں کامیاب ہونے والے لوگ عام انسانوں سے مختلف بلکہ ذہنی طور پر اعلی ہوتے ہیں۔

قوت فکر نمایاں ہوتی ہے، تخلیقی اعتبار سے بہت آگے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کئی گھپ اندھیروں میں ایسے راستے ڈھونڈ نکالتے ہیں جو انسانیت کا جوہر اور ترقی کے عمل کے ضامن ہیں۔ انہی کے طفیل کائنات اپنے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے اور وہ خدا کے راز دانوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جب کھوج کائنات تک پہنچ جائے اور مطمح نظر انسانیت ہو تو پھر دنیا کا گلوبل ویلیج بن جانا کوئی اچنبھے کی بات بھی تو نہیں رہ جاتی اور اس گلوب کی چلانے کے رولز اور ریگولیشنز جن کو پولیٹیکل سائنس میں آئین کہا جاتا ہے یہی لوگ بناتے ہیں۔

یہ مخفی راز ان بڑے لوگوں پر کھلتے ہیں جنہیں قدرت نے قوموں کی تربیت کا فریضہ سونپا ہوتا ہے۔ اس کی مثال میں جواہر لعل نہرو کو دیکھ لیجیے کہ جب مغربی دنیا نے مہرباں ہو کر مدد کرنا چاہی تو انہوں نے ایم آئی ٹی کی طرح کے ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ مانگ لئے۔ ایک نہیں، اکٹھے چھے۔ یہ ادارے نہ صرف معرض وجود میں آ گئے بلکہ یہاں اعلیٰ ترین معیار تعلیم کا بھی خاطر خواہ بندوبست کیا گیا۔ یہاں کے طلبہ نے باہر کی دنیا میں بھی بڑا نام کمایا اور ملک کے اندر بھی انقلاب برپا کر دیا۔

بنگلور کو نہ صرف کیلی فورنیا کی سیلیکون وادی کے برابر لا کھڑا کیا بلکہ ایک اندازہ کے مطابق وہاں ایک لاکھ بیسں ہزار ماہرین کام کرتے ہیں، جب کہ بنگلور میں ان کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اب حیدر آباد، مدراس، ممبئی اور دہلی بھی پیچھے نہیں رہے۔ ہندوستان سات ارب ڈالر سالانہ آئی ٹی خدمات کی بر آمد سے کما رہا ہے۔

اس دوڑ میں ہم کہاں ہیں؟ نکتہ آغاز سے بھی پیچھے بلکہ مسلسل پھسلتے ہوئے، ہر لمحہ منزل ہم سے دور بھاگتی ہوئی۔ دور حاضر کا تقاضا ہے کہ تمام تر وسائل اور توجہ تعلیم پر مرکوز کیے جائیں۔ ترقی کرنی ہے تو رولز آف دا گیم پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور جہاں جہاں ترمیم ضروری ہے اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا ورنہ آٹے اور انصاف کے حصول کے لئے لگی قطاریں اور ہجوم میں مرتے لوگوں کی تعداد میں تو اضافہ ہو سکتا ہے ہماری ترقی میں نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments