ارتقائی نظریات کا المیہ


ارتقا ایک وسیع اور پیچیدہ موضوع ہے۔ علمی محفلوں میں عام طور تین طرح کے ارتقا پر بحث کی جاتی ہے ان میں سرفہرست حیاتیاتی ارتقا، کائنات کا ارتقا اور سماجی علوم میں ارتقائی اصولوں سے استفادہ یا مطابقت وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ لفظ ارتقا کو خاصے مختلف معانی میں بھی لکھا اور بولا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی، جدت، بالیدگی، طلوع و عروج، اٹھان، پیش رفت، تسلسل، توسیع، وسعت، پھیلاؤ، آشکار، تغیر، تبدیلی یا کایا پلٹ، موافقت، ترمیم و تبدیلی وغیرہ۔ بعض جگہوں پر ارتقا کو چارلس ڈارون سے بھی لازم و ملزوم کر لیا جاتا ہے۔ بعض لوگ ارتقا کو بندروں یا گوریلوں کی افزائش نسل سے بھی جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

جس طرح لفظ ارتقا کو بیشمار معانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بین اسی طرح اس کی تعریف و تشریح بھی لاتعداد طریقوں سے کی جاتی ہے یا کی جا سکتی ہے۔ یہاں ہم حوالہ یا آسانی کے لیے ایک سادہ اور مختصر لیکن جامع تعریف رقم کر رہے ہیں تا کہ بات کو آگے بڑھایا جا سکے۔

”زمان و مکاں میں رد و بدل سے کسی بھی نوع یا انواع کی خصوصیات میں بتدریج ترقی پذیری اور مثبت تغیر و تبدل کو ارتقا کہا جا سکتا ہے۔ یہاں نوع سے مراد کوئی جاندار، سائنس، نظریہ، تحریک، معاشرہ، ریاست، ٹیکنالوجی وغیرہ ہو سکتی ہے“ ۔

یہ بھی ایک عام فکری مغالطہ یا تصور عام ہے کہ چارلس ڈارون ہی ارتقا نامی گناہ کبیرہ کا واحد موجد یا ذمہ دار ہے یا تھا۔ ماہرین علم ارتقا کے ارتقا کو تین ادوار میں تقسیم کر کے بیان کرتے ہیں۔ ڈارون سے پہلے کا دور، ڈارون کا دور اور ڈارون کے بعد کا دور۔

ڈارون سے پہلے کا دور ( 610 قبل مسیح سے 1882 ء ) کے مشہور یونانی اساتذہ میں اناکسی مینڈر، ایمپیڈوکلس، ہیروڈوٹس، افلاطون، ارسطو، زینو، مارکوس سیسارو (رومن فلسفی) ، چینی فلسفی ژونگ زی ( 350 قبل مسیح) ، ابو عثمان عمرو بن بحر الکنانی ( 776۔ 868 ) ء، ابن خلدون ( 1332۔ 1406 ) ء کارل لینیس ( 1707۔ 1778 ) ء کو مٹ ڈی بفن ( 1707۔ 1788 ) ء ارسمس ڈارون ( 1731۔ 1802 ) ء جو کہ چارلس ڈارون کے دادا تھے، لامارک ( 1744۔ 1829 ) ء

ارتقائی نظریات میں استعمال ہونے والی تقریباً تمام اصطلاحات اسی دور میں وضع ہوئیں اور بنیادی نکات یا اصول مثال کے طور پر نظریہ ضرورت، موافقت، وائٹل فورس، نیچرل سلیکشن یا قدرتی انتخاب، نوع، جنس یا قسم کو بھی متعارف کروایا گیا۔ انسان اور بندروں کی قریبی رشتے داری کو سب سے پہلے ابن خلدون نے بیان کیا۔ چارلس ڈارون بعد میں خواہ مخواہ بدنام ہوا۔ لامارک اس سلسلے کے آخری کڑی ہیں جس نے اپنے پیش روؤں کے کام کو سمیٹا اور ارتقا کو باقاعدہ تھیوری کی شکل میں پیش کیا۔

چرچ کا عروج بھی اسی دور میں ہوا۔ چرچ کے بڑوں نے ارتقائی نظریات کو سختی سے رد کیا اور فرمان جاری کیا کہ خدا نے ایک دن میں زمین اور آسمان کو بنایا اور تمام جانداروں کو اسی شکل میں بنایا جس شکل میں وہ موجود ہیں۔ جیمس عشر نے زمین کی پیدائش کا سال مہینہ اور تاریخ بتائی بمطابق 23 اکتوبر 4004 قبل مسیح۔ بعد میں ڈاکٹر چارلس لائٹ فٹ نے پیدائش زمین کے ٹھیک وقت یعنی صبح 9 : 00 بجے کا اضافہ بھی کر دیا۔ آج دنیا کی اکثریت اسی طرح کے نظریات پر قائم ہے۔

مندرجہ ذیل نکات یا ارتقائی عمل میں کار فرماء اصولوں پر مبنی لامارک کی ارتقائی تھیوری کے منظر عام پر آ جانے سے ڈارون سے پہلے دور کا خاتمہ ہوا۔

نظریہ ضرورت، عضو یا عضویات کا استعمال یا متروک، حاصل شدہ خصوصیات کی اگلی نسلوں میں منتقلی، کسی نوع میں زیادہ خصوصیات جمع ہو جانے سے اسے ایک نئی نوع کا وجود میں آنا، تبدیلی کی شدید خواہش، ماحول سے مطابقت۔

چارلس ڈارون ( 1809۔ 1882 ) ء نے اپنے پیش روؤں کے برعکس ارتقائی تبدیلیوں کو ثابت کرنے کے لیے دنیا بھر کا سفر کر کے انواع کے نمونے اور معدوم انواع کے فوسلز کو ٹھوس ثبوتوں کے طور پر پیش کرنے کے لیے اکٹھا کیا۔ ان کی وضع کردہ ریڈیکل اور سائنسی ارتقائی تھیوری نے ناصرف ماضی کے ارتقائی نظریات کو تقریباً رد کیا بلکہ ارتقائی عمل کے جدید معیارات یا اصولوں کو متعارف کروایا اور مستقبل میں ریسرچ کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ ڈارون کی تھیوری کے بنیادی نکات میں فطری یا قدرتی انتخاب، مسابقت، جینیاتی تبدیلی، موزوں ترین کی بقا وغیرہ شامل ہیں۔

بعد کے عرصہ میں گریگر منڈل اور ہیوگو ڈی ورائس نے انواع میں تبدیلیوں یا نئی انواع کے وجود پانے کی وجوہات میں کروموسوم اور جینز میں تبدیلیوں کو سائنسی طور پر ثابت کر کے ڈارونی تھیوری کو مزید سائنسی بنیادیں فراہم کر کے نو ڈارون ازم کی بنیاد رکھی۔

اگر ایک لائن میں لامارک اور ڈارون کی ارتقائی تھیوریوں کا تقابلی خلاصہ بیان کیا جائے تو شاید اس طرح سے ہو سکتا ہے۔ ضرورت کے مطابق جو انواع زمینی حالات سے مطابقت قائم کر لیں وہی نوع زندہ رہ پاتی ہیں (لامارک) ۔ ڈارون کے مطابق جو انواع زمینی حالات کا مقابلہ یا مزاحمت کریں اور اپنی خوبیوں میں اضافہ یا بہتری لائیں گی زندہ رہیں گی۔

دور جدید میں سماجی علوم میں ارتقائی طریقہ کار سے استفادہ کر کے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے میں ہیگل اور کارل مارکس سرفہرست تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ سماجی علوم اور سماجی حالات میں بہتری یا تبدیلی ارتقائی اصولوں کے تحت ہی آتی ہے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ ہیگل اپنی تعلیمات میں افلاطون اور ارسطو کے ارتقائی نظریات سے متاثر نظر آتے ہیں جبکہ مارکس کی تحریروں میں ہر لفظ کے پس منظر میں ڈارون کے ارتقائی نظریات کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔

ارتقا کائنات کا ہو یا حیاتیات میں اس میں ہم انسانوں کا کوئی خاص عمل دخل نہیں ہے۔ ارتقائی عمل ایک خودکار فطری یا قدرتی عمل ہے جو انسانوں سے پہلے بھی جاری تھا اور ا انسانوں کے بعد بھی جاری رہے گا۔ نہ ہی اس پر کوئی روک لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے تیز کیا جا سکتا ہے۔ البتہ ہر قسم کے سائنس و سماجی علوم کی ترویج اور سماجی تبدیلیوں کو ارتقائی نقطہ نظر سے بیان و تشریح کا انحصار انسانوں پر تھا اور ہے۔

آج کے انسانوں کا سب سے مسئلہ یہی ہے کہ وہ بالعموم ارتقائی نظریات، سوچ اور طریقہ کار سے قطعاً نا آشنا ہیں۔ روز مرہ زندگی میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات کو دیو مالائی قصہ کہانیوں یا محض ٹیوے بازیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو لوگ تھوڑا بہت پڑھ لکھ چکے وہ ہر مسئلے کی وجہ اور حل کسی سازشی نظریہ یا سائنس فکشن میں تلاش کرتے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں آج کی دنیا کے پیچیدہ مسائل اور سوالات کو صرف اور صرف ارتقائی نظریات کی روشنی میں ہی سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔

دنیا کی کل آبادی کو عام طور پر تین طرح کے فکری دھاروں یعنی بنیاد پرستی، قدامت پسندی اور ترقی پسندی میں تقسیم کر کے دیکھا جاتا ہے۔ بنیاد پرستوں کے ہمیشہ ارتقا کا رد کیا بہرکیف ان کے ہاں رد کے ”ٹھوس“ دلائل موجود ہیں۔ قدامت پسند طاقت، سرمایہ اور نسل پرستی کے خول سے باہر ہی نہ آ سکے اور ان کا بڑا مسئلہ چونکہ سٹیٹس کو ہوتا ہے لہذٰا ارتقائی سوچ ان کو بھی وارہ نہیں کھاتی۔

ارتقائی نظریات کا اصل المیہ ترقی پسند سوچ سے جڑا ہوا ہے۔ علوم کا احیا اپنی اصل میں ترقی پسندی کا ہی احیا ہوا کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ترقی پسند ارتقائی نظریات یا اصولوں کے مطابق اپنی سمت یا طریقہ کار کو درست رکھتے یہ بندر اور انسان کی آپسی کڑیوں کے درمیان ہی کہیں کھو گئے۔ اس کے بعد دنیا بھر کے ترقی پسندوں کو انقلاب کا چسکا لگ گیا۔ بس پھر کیا تھا انقلاب اور ارتقا کے باہمی تعلق کو قائم کرنے بحثوں کا آغاز ہوا۔

لینن کی مشہور زمانہ پانی سے بھاپ بننے کی بحث اسی ضمن میں ہی ہے۔ لہذٰا ”ثابت ہو گیا کہ انقلاب ناصرف عین ارتقائی عمل ہے بلکہ معاشرتی ارتقا میں تیزی کا بھی باعث ہے“ ۔ انقلاب کی ہنڈیا تو ایک دو ابالوں کے بعد ہی بھاپ میں تبدیل ہو گئی۔ چنانچہ 1990 ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ترقی پسندوں نے دوبارہ سے ارتقائی نظریات کی طرف رجوع کیا اور کھوج کرنے کی کوشش کی کہ چوک کہاں پہ ہوئی۔ نتیجہ کے طور پر یہ لامارک ازم اور ڈارون ازم میں الجھ گئے کہ ان کی انقلابی کیفیات کو کون بہتر طریقے سے دوبالا کر سکتا ہے۔

گزشتہ 30 سالوں کے دوران سماجی تبدیلی کے طالب علم کے طور پر راقم کو دنیا بھر سے ترقی پسندوں سے مکالمہ اور بحث کا موقع ملا۔ ان کی اکثریت لامارک اور اس سے بھی قدیم ارتقائی نظریات پر نا صرف قائم بلکہ باقاعدہ ان کی وکالت بھی کر رہی تھی۔ ڈارونی نظریات کے متعلق ان کی رائے بالکل ہمارے ملاں کی طرح ہی تھی۔

حقیقت حال یہ ہے کہ ڈارون نے اپنے پیش روؤں کے ارتقائی نظریات کو تقریباً رد کر دیا بلکہ بعد میں ہونے والی سائنسی ریسرچ نے بھی ڈارون کی تھیوری پر بہتر ہونے کی مہر ثبت کی۔ ہمارا ادنیٰ دعویٰ ہے کہ اگر ترقی پسند تحریک محض اپنی سوچ، طریقہ کار، وژن، مشن میں فرسودہ ارتقائی نظریات کی جگہ جدید ڈارونی نظریات سے استفادہ کر لے تو یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments